دیا تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اور دیگر اکابرین شام کو بلایا، پھر ان سے مشورہ کیا، لیکن سب نے قاتلین عثمان کے قتل کردیے جانے یا انھیں سونپ دیے جانے تک بیعت نہ کرنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ اگر علی رضی اللہ عنہ ایسا نہیں کرتے تو ان سے قتال کیا جائے اور ان سے مرتے دم تک بیعت نہ کی جائے۔ جریر رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ کے پاس اس واقعہ کی تفصیلات لے کر واپس آئے تو اشتر نے کہا: اے امیر المومنین کیا میں نے آپ کو منع نہیں کیا تھا کہ جریر کو نہ بھیجیں؟ اگر آپ مجھے بھیجتے تو معاویہ جو بھی عذر کا دروازہ کھولتے میں اسے بند ہی کردیتا۔جریر رضی اللہ عنہ نے اشتر سے کہا: اگر وہاں میری جگہ تم ہوتے تو عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کے بدلہ وہ سب تمھیں قتل کردیتے، اس نے کہا: اگر آپ نے مجھے بھیجا ہوتا تو معاویہ کا جواب مجھے خاموش نہ کرپاتا اور میں انھیں سوچنے کا موقع نہ دیتا اور سنو! اگر تمھارے بارے میں امیر المومنین نے میری بات مان لی ہوتی تو تمہیں اور تم جیسے دوسرے لوگوں کو اس وقت تک قید میں رکھتے جب تک کہ اس امت کا معاملہ درست نہ ہوجاتا۔ جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ غصہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور قرسیسیاء میں جاکر اقامت گزیں ہوگئے اور وہاں سے معاویہ رضی اللہ عنہ کو اپنی اور اشتر کی گفت و شنید سے باخبر کیا، پھر معاویہ رضی اللہ عنہ نے خط کے ذریعہ سے انھیں اپنے پاس بلالیا۔[1] اس طرح اشتر جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی جو کہ قرقیسیاء اور دیگر علاقوں کے امیر رہ چکے تھے اور اپنے قبیلہ بُجَیلہ کے سردار تھے، انھیں بھگانے اور علی رضی اللہ عنہ سے جدائی پر مجبور کرنے کا سبب بنا، حالانکہ آپ وہی جریر بن عبداللہ البجلی صحابی ہیں جن کا بیان ہے کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ مجھ پر پڑی آپ مسکرائے اور فرمایا: ((سَیَدْخُلُ عَلَیْکُمْ مِنْ ہٰذَا الْبَابِ مِنْ خَیْرِ ذِي یَمَنٍ عَلَی وَجْہِہِ مَسْحَۃُ مَلَکٍ۔))[2] ’’اس دروازہ سے تمھار پاس یمن کا ایک بہترین آدمی آنے والا ہے، اس کے چہرہ پر فرشتوں جیسی سادگی ہے۔‘‘ 6۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی شام روانگی: امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے جنگ شام کے لیے مکمل تیاری کرلی، لوگوں کو اس میں شرکت کے لیے کہلا بھیجا۔[3] اور بہت بڑی فوج مسلح کی، اس کی تعداد کتنی تھی اس سلسلہ میں روایات مختلف ہیں۔ ساری روایات ضعیف ہیں۔[4]صرف ایک روایت کی سند حسن درجہ ہے کی جس میں ہے کہ آپ کے ساتھ پچاس ہزار کی مسلح فوج تھی۔[5] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |