Maktaba Wahhabi

576 - 1201
ساتھ مہربانی سے پیش آنا ان کے دلوں کو نرم کرنے کا سبب ہے۔ [1] 4۔ صلح اور جنگ کے میدانوں میں سیاست خارجہ کے قواعد: علی رضی اللہ عنہ اپنے گورنر مالک بن اشتر کے نام خط میں لکھتے ہیں: ’’اگر دشمن تمھیں ایسی صلح کی پیش کش کرے کہ جس میں اللہ کی رضامندی ہو، تو اسے کبھی ٹھکرا نہ دینا، کیونکہ صلح میں تمھارے لشکر کے لیے آرام وراحت، خود تمھارے لیے فکروں سے نجات اور شہروں کے لیے امن کا سامان ہے، لیکن صلح کے بعد دشمن سے چوکنا اور خوب ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے، کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دشمن قرب حاصل کرتا ہے، تاکہ تمھاری غفلت سے فائدہ اٹھائے، لہٰذا احتیاط کو ملحوظ رکھو اور اس بارے میں حسن ظن سے کام نہ لو اور اگر اپنے اور دشمن کے درمیان کوئی معاہدہ کرو یا اسے اپنے دامن میں پناہ دو تو پھر عہد کی پابندی کرو، وعدہ کا لحاظ رکھو اور اپنے قول و قرار کی حفاظت کے لیے اپنی جان کو ڈھال بنادو، کیونکہ اللہ کے فرائض میں ایفائے عہد کی ایسی کوئی چیز نہیں کہ جس کی اہمیت پر دنیا اپنے الگ الگ نظریوں اور مختلف راویوں کے باوجود یکجہتی سے متفق ہو اور مسلمانوں کے علاوہ مشرکوں تک نے اپنے درمیان معاہدوں کی پابندی کی ہے اس لیے کہ عہد شکنی کے نتیجہ میں انھوں نے تباہیوں کا اندازہ کیا تھا، لہٰذا اپنے عہد وپیمان میں غداری اور قول و قرار میں بدعہدی نہ کرنا اور اپنے دشمن پر اچانک حملہ نہ کرنا، کیونکہ اللہ پر جرأت جاہل، بدبخت کے علاوہ دوسرا نہیں کرسکتا اور اللہ نے عہد وپیمان کی پابندی کو امن کا پیغام قرار دیا ہے کہ جسے اپنی رحمت سے بندوں میں عام کردیا ہے اور ایسی پناہ گاہ بنایا ہے کہ جس کے دامن حفاظت میں پناہ لینے اور اس کے جوار میں منزل کرنے کے لیے وہ تیزی سے بڑھتے ہیں۔ لہٰذا اس میں کوئی جعلسازی، فریب کاری اور مکاری نہ ہونا چاہیے اور ایسا کوئی معاہدہ کروہی نہ، جس میں تاویلوں کی ضرورت پڑنے کا امکان ہو، معاہدہ کے پختہ اور طے ہو جانے کے بعد اس کے کسی مبہم لفظ سے دوسرا معنی نکال کر فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرو اور اس عہد وپیمان الٰہی میں کسی دشواری کا محسوس ہونا تمھارے لیے یہ سبب نہیں بننا چاہیے کہ تم اسے ناحق منسوخ کرنے کی کوشش کرو، کیونکہ ایسی دشواریوں کو جھیل لے جانا جن سے چھٹکارے کی اور انجام بخیر ہونے کی امید ہو ایسی بدعہدی کرنے سے بہتر ہے جس کے برے انجام کا تمھیں خوف ہو، اور یہ اندیشہ ہو کہ اللہ کے یہاں تم سے اس پر کوئی جواب دہی ہوگی، اس طرح تمھاری دنیا اور آخرت دونوں تباہ و برباد ہوں گی۔ ‘‘[2] خط کے اس اقتباس کی روشنی میں گورنر سیاست خارجہ کے تعلق سے چند امور انجام دے گا: ٭ بین الاقوامی اور بالخصوص پڑوسی ممالک کے ساتھ معاہدہ کرنا۔ ٭ جنگی تیاری سے مسلح رہنا اور ساتھ ہی ساتھ ضرورت پڑنے پر احتیاطی اقدام سے کام لینا، یعنی جنگی صورتحال
Flag Counter