Maktaba Wahhabi

531 - 1201
تھا اس لیے ان حضرات نے اس کو اقامت کے لیے منتخب فرمایا تھا۔ علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے جزیرہ پر مقرر کیے جانے والے جن دیگر گورنران کا نام ملتاہے ان میں عامر[1] اور کمیل بن زیاد قابل ذکر ہیں۔ جزیرہ پر حملہ آور شامی فوج سے مقابلہ آرائی میں ان دونوں کا بہت اہم کردار رہا، بلکہ دفاعی پوزیشن سے ہٹ کر یہ دونوں جزیرہ کی طرف سے شام پر بھی پیش قدمی کرنے میں کسی حد تک کامیاب رہے۔[2] مصر: سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت محمد بن ابی حذیفہ مصر کی گورنری پر زبردستی قابض تھے، عثمان رضی اللہ عنہ نے انھیں وہاں مقرر نہ کیا تھا، لیکن عثمان رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد علی رضی اللہ عنہ نے ایک مختصر مدت تک کے لیے انھیں بحیثیت گورنر وہاں باقی رکھا، لیکن جب معاویہ رضی اللہ عنہ کی فوج مصر کے علاقہ میں داخل ہوئی تو محمد بن ابی حذیفہ کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئی، چنانچہ وہ گرفتار کیے گئے اور پھر قتل کردیے گئے۔[3] بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے محمد بن ابی حذیفہ کو مصر کا گورنر نہیں مقرر کیا تھا، بلکہ انھیں ان کی حالت پر چھوڑ دیا تھا اور جب معاویہ رضی اللہ عنہ کی فوج کے ہاتھوں وہ قتل کر دیے گئے تو آپ نے قیس بن سعد انصاری رضی اللہ عنہما کو وہاں کا گورنر مقرر کیا۔[4] ان سے کہا کہ مصر جاؤ، میں نے تمہیں وہاں کا گورنر بنادیا ہے، جاؤ اپنی سواری تیار کرو، اپنے معتمدین اور خاص رفقاء جنھیں اپنے ساتھ لے جانا چاہتے ہو لے جاؤ تاکہ تم وہاں پہنچو تو تمھارے ساتھ ایک فوج ہو، اس سے تمھارے دشمن زیادہ مرعوب ہوں گے اور تمھارے دوست زیادہ معزز ہوں گے، پھر اگر ان شاء اللہ بخیر و خوبی پہنچ جاتے ہو تو محسنین کے ساتھ احسان، تردد کرنے والوں کے ساتھ سختی اور خواص و عوام کے ساتھ نرمی برتنا، کیونکہ اسی میں برکت ہے۔[5] چنانچہ قیس بن سعد انصاری رضی اللہ عنہما مصر کے لیے روانہ ہوئے اور منصب سنبھالنے تک کئی مواقع پر نہایت ذکاوت اور بیدار مغزی کا مظاہرہ کیا، چونکہ مصر میں دونوں گروہوں کے لوگ رہتے تھے، ایک گروہ ان لوگوں کا تھا جو عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت سے سخت نالاں تھا، جب کہ دوسرا گروہ ان لوگوں کا تھا جو قتل عثمان میں شریک تھے، اس لیے جب قیس رضی اللہ عنہ مصر پہنچے تو اندر داخل ہونے سے قبل مصری سواروں کا ایک دستہ ملا، اس نے قیس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: تم کون ہو؟ قیس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: عثمان رضی اللہ عنہ کی شکست خوردہ جماعت سے ہوں اور میں قاتلین عثمان کی تلاش میں ہوں، جنھوں نے یہاں پناہ لے رکھی ہے۔ انھوں نے پوچھا: تمھارا نام کیا ہے؟ آپ نے جواب دیا: قیس بن سعد، انھوں نے کہا: جاسکتے ہو، چنانچہ آپ آگے بڑھے اور
Flag Counter