مصر میں داخل ہوگئے۔[1]چنانچہ اپنے اسی دانشمندانہ موقف کی بنا پر قیس رضی اللہ عنہ مصر پہنچنے میں کامیاب ہوئے، اور وہاں پہنچ کر اعلان کیا کہ میں یہاں کا امیر بن کر آیا ہوں، اگر آپ شروع ہی میں مصری شہسواروں کو بتا دیتے کہ میں امیر بن کر آیا ہوں تو وہ لوگ آپ کو کسی صورت میں مصر میں داخل نہ ہونے دیتے، جیسا کہ شام میں بحیثیت گورنر جانے والوں کے ساتھ ہوا تھا، جب باشندگان شام کو معلوم ہوا کہ یہ لوگ علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے شام کے امیر بن کر آئے ہیں تو انھوں نے اندر نہیں جانے دیا۔[2] بہرحال جب قیس بن سعد رضی اللہ عنہما فسطاط پہنچے تو منبر پر تشریف لے گئے اور اہل مصر کو خطاب کیا، انھیں علی رضی اللہ عنہ کا مکتوب پڑھ کر سنایا اور ان کی خلافت پر بیعت کا مطالبہ کیا۔[3] لیکن اس خطاب کے بعد اہل مصر دو فریق میں تقسیم ہوگئے، ایک نے علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کو تسلیم کیا اور قیس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے لگے، جب کہ دوسرے فریق نے توقف کیا اور بیعت کرنے سے الگ رہا۔ قیس بن سعد رضی اللہ عنہما نے دونوں فریقوں کے ساتھ نہایت حکیمانہ اسلوب اپنایا، جس فریق نے بیعت نہیں کی آپ نے اسے مجبور بھی نہیں کیا بلکہ اسے اس کی حالت پر چھوڑ دیا اور اس کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی۔[4] اور اسی پر بس نہیں کیا بلکہ جہاں یہ لوگ تھے آپ نے وہاں ان کا عطیہ پہنچایا، اس فریق کا ایک گروہ آپ سے ملنے آیا تو آپ نے اسے نہایت اعزاز و احسان بخشا۔[5] آپ کے اس خوشنما برتاؤ کا فائدہ یہ ہوا کہ اس جماعت سے ٹکراؤ کی کوئی شکل پیدا نہ ہوئی اور نتیجتاً مصر کے حالات پرامن رہے، اس اطمینان بخش ماحول کی وجہ سے قیس رضی اللہ عنہ بھی مصر کے معاملات و احوال درست کرنے میں کافی حد تک کامیاب رہے، آپ نے افسران کے سر ذمہ داریاں تقسیم کیں، نظام خراج کو منظم کیااور پولیس کا نظام مقرر کیا۔[6] اس طرح آپ نے ریاست مصر کے نظم و نسق کو درست کیا اور تمام لوگوں کو خوش رکھنے میں کامیاب رہے۔[7] لیکن دوسری طرف قیس بن سعد رضی اللہ عنہما کا مصر میں مذکورہ حکمت عملی کے ساتھ بحیثیت گورنر موجود ہونا شام میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے ایک سیاسی بوجھ اور عسکری خطرہ تھا، کیونکہ مصر شام سے قریب تھا، چنانچہ قیس کے ریاستی نظم و نسق کی عمدگی اور ان کی ہمت و حوصلہ مندی کی شہرت سن کر اور مصر کی طرف سے کسی وقت بھی ان کی فوجی کارروائی کے خوف و اندیشہ سے معاویہ رضی اللہ عنہ نے قیس بن سعد رضی اللہ عنہما کو ایک طرف دھمکی آمیز خطوط لکھنا شروع کیے اور دوسری طرف ساتھ ہی ساتھ اس کوشش میں رہے کہ کسی طرح قیس رضی اللہ عنہ کو لبھا کر اپنے ساتھ ملا لیں، لیکن قیس رضی اللہ عنہ بھی معاویہ رضی اللہ عنہ کے خطوط کا ایسا دانشمندانہ جواب دیتے رہے کہ وہ قیس کا موقف سمجھنے سے قاصر رہے۔[8] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |