Maktaba Wahhabi

201 - 1201
سریۂ علی رضی اللہ عنہ بت شکنی کے لیے بنوطے کی طرف: اب جب کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ الحرام ’’خانہ کعبہ‘‘ کو بتوں سے پاک کرچکے تھے، ضروری تھا کہ ان عمار توں کو بھی ڈھادیاجائے، جو ایک لمبے عرصہ سے جاہلی عقائد مراسم کے نشانات تھے۔[1] چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جزیرۂ عرب کو شرک وآثار جاہلیت سے پاک کرنے کے لیے یکے بعد دیگرے سرایا کو بھیجنا شروع کیا، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں اس سریہ کی قیادت آئی جسے بنوطے میں واقع ’’قلس‘‘ نامی بت توڑنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی آپ ربیع الاوّل کے مہینہ میں ایک سو پچاس (150)انصاریوں کو لے کر ’’قلس‘‘ کو ڈھانے کے لیے بنوطے کی طرف نکلے، ان کے ساتھ سو (100) اونٹ اور پچیس (25) گھوڑے تھے، بڑا جھنڈا سیاہ اور چھوٹا سفید تھا، انھوں نے وہاں پہنچ کر فجر کے ساتھ آل حاتم طائی کے محلہ میں چھاپہ مار کر بت کو ڈھادیا اور مزاحمت کرنے والوں کو قید کرلیا، غنیمت میں بہت سے غلام، لونڈیاں، اونٹ اور بکریاں ہاتھ آئیں، قیدیوں میں عدی بن حاتم کی بہن بھی تھی، اس کے بھائی عدی بن حاتم شام کی طرف نکل بھاگے۔ [2] غزوۂ تبوک کے موقع پر مدینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کی خبر گیری سیّدناعلی رضی اللہ عنہ کے حوالے : رجب 9ھ میں تبوک کا معرکہ پیش آیا۔ سیرت نبوی میں اس غزوہ کی بڑی اہمیت ہے، اس سے وہ مقاصد ونتائج حاصل ہوئے جو مسلمانوں اور عربوں کی نفسیات واحساسات اور بعد کے پیش آنے والے واقعات وحالات کا رخ معین کرنے میں عمیق اور دیر پا اثرات کے حامل ہیں۔ [3] اس غزوہ کے موقع پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کا محافظ (گورنر) محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اور اپنے اہل بیت کی دیکھ بھال و خبر گیری کے لیے علی رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا، پھر کیا تھا؛ ’’منافقوں‘‘ کو حسد و نفاق کی بھڑا س نکالنے کا ایک موقع ہاتھ لگ گیا، انھوں نے علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں چہ میگوئیاں شروع کردیں اور یہاں تک کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو صرف اس لیے پیچھے چھوڑ دیا ہے کہ ’’آپ انھیں اپنے لیے ایک بوجھ سمجھتے تھے‘‘ یقینا علی رضی اللہ عنہ کے حق میں ان کی یہ بے ہودہ گوئی ان کی منافقت کی واضح دلیل ہے جیسا کہ صحیح وصریح حدیث ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس نے بیج سے پودا اگایا اور روح کو زندگی عطا کی، نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے عہد کیا ہے کہ (( اِنَّہُ لَا یُحِبُّنِيْ إِلَّا مُؤْمِنٌ وَلَا یُبْغِضُنِيْ اِلَّامُنَافِقٌ۔)) [4] مجھ سے مومن ہی محبت کرے گا او رمنافق ہی بغض رکھے گا۔‘‘آپ غزوہ میں شرکت کے جذبہ سے سرشار تھے لشکر سے جاملے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول !کیا آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑ دیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَلاَ تَرْضَیٰ أَنْ تَکُوْنَ مِنِّيْ بِمَنْزِ لَۃِ ہَارُوْنَ مِنْ مُّوْسَیٰ غَیْرَأَنَّہُ لَا نَبِيَ
Flag Counter