Maktaba Wahhabi

201 - 263
تخصیص کا فائدہ دے۔ اور یَد سے یہاں قدرت اور قبضہ مراد ہے۔ یعنی ہرق سم کی خیر اور بھلائی صرف تیری ہی قدرت اور صرف تیرے ہی قبضہ واختیار میں ہے اور متصرف علی الاطلاق تو ہی ہے۔ تیرے سوا کوئی مالک ومختار، قادر وکارساز، حاجت روا اور مشکل کشا نہیں۔ تعریف الخیر للتعمیم وتقدیم الخبر للتخصیص ای بقدرتک الخیر کله لا بقدرة احد من غیرک تتصرف فیه قبضا وبسطا جسما تقتضیه مشیتک ذُرِّیَّةً، اٰلین سے بدل یا حالواقع ہے۔ نصب علی البدلیة من الآلین او الحالیة منهما([1])یہود ونصاریٰ اس شبہ میں گرفتار تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کو باقی مخلوق سے منتخب کر کے سب سے اونچا مقام اور مرتبہ عطا فرمایا ہے اور انہیں خاص خاص اختیارات بھی عطا کیے ہیں۔ چنانچہ یہودیوں نے حضرت عزیر(علیہ السلام)کو اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ(علیہ السلام)کو کارساز اور معبود سمجھ کر پکارنا اور پوجنا شروع کردیا اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ یہ تمام انبیاء علیہم السلام باوجود علو مرتبت اور رفعت شان کے انسان اور بشر تھے اور باہم ایک دوسرے کی اولاد اور نسل تھے اور اپنی پیدائش اور بقا میں محتاج تھے۔ اس لیے وہ معبود اور کارساز نہیں ہوسکتے۔ ان نصاریٰ نجران لما غلوا فی عیسیٰ علیه الصلوة والسلام وجعلوه ابن اللّٰه سبحانه واتخذوه الها نزلت ردا علیهم واعلاما لهم بانه من ذریة البشر المنقلبین فی الاطوار المستحیلة علی الاله[2]۔ وَاللّٰهُ سَمِیعٌ عَلِیْمٌ۔ اس آیت کا حاصل یہ ہے کہ جن بزرگوں سے متعلق معبود ہونے کا شبہ تھا اسے دو طرح سے رفع کیا گیا۔ اول اس طرح کہ یہ حجرات باہم والد ومولود ہیں۔ دوم۔ یہ حضرات ہر چیز کو جاننے اور سننے والے نہیں ہیں۔ سمیع بکل شیء اور علیم بکل شیء صرف اللہ کی صفت ہے۔ اس لیے وہی معبود برحق ہے۔ اور اس کے سوا کوئی معبود اور کارساز نہیں۔[3] احکام رعیت بیان کرنے کے بعد اصل مسئلہ توحید کا ذکر فرمایا۔ اُعْبُدُوْا اللّٰهَ صرف خدائے واحد کی عبادت بجا لاؤ صرف اسے ہی پکارو قال ابن عباس المعنی وحدوه[4]وَلَاتُشْرِکُوْا بِهٖ شَیْئاً اور اس کی عبادت اور پکار میں اس کی کسی مخلوق کو اس کا شریک نہ بناؤ نہ پیغمبروں اور ولیوں کو نہ فرشتوں اور جنوں کو۔ [5] جب اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب اور کارساز نہیں اور کوئی اس کی بارگاہ میں شفیع قاہر نہیں تو صرف اسی کی عبادت کرو۔
Flag Counter