Maktaba Wahhabi

237 - 1201
دلائل کی روشنی میں جب میراث کا لفظ صرف مال وجائداد کے لیے خاص نہیں رہا، تو اللہ کے فرمان وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ اور يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ ۖ کے بارے میں بھی یہی کہا جائے گا کہ وہاں میراث کی جنس مراد ہے، نہ کہ صرف مال کی وراثت۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ داؤد علیہ السلام کے پاس سلیمان علیہ السلام کے علاوہ کئی اولادیں تھیں، اگر مال کا وارث بنانا مقصود ہوتا تو صرف سلیمان علیہ السلام کو خاص نہ کرتے، پس واضح رہے کہ اس وراثت سے مراد علم و نبوت کی وراثت ہے نہ کہ مال کی، علاوہ ازیں ایک قابل غور پہلو یہ بھی ہے کہ یہ آیت کریمہ سلیمان علیہ السلام کی مدح اور ان پر اللہ کی خاص نعمت کے اظہار کے لیے بیان کی گئی ہے اور وراثت میں صرف مال وجائدا د کا ملنا کوئی قابل تعریف چیز نہیں ہے، کیونکہ وراثت میں مال وجائداد تو ہر انسان کو ملتی ہے، تو معلوم ہوا کہ یہاں وارثت کی خاص نوعیت مراد ہے۔ بالکل یہی معاملہ اللہ کے فرمان يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ ۖ کا بھی ہے یعنی یہاں مال کی وراثت مراد نہیں ہے، کیونکہ اگر مال کی وراثت مان لی جائے تو صرف یحییٰ علیہ السلام آل یعقوب کے مال کے وارث نہیں ہوں گے بلکہ آپ کے علاوہ آل یعقوب کی دوسری اولادیں اور بقیہ ورثہ آل یعقوب کی جائداد کے وارث ہوں گے۔ (لہٰذا دعا کا فائدہ نہیں) [1] اسی طرح زکریا علیہ السلام کا یہ کہنا کہ وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِن وَرَائِي مجھے اپنے مرنے کے بعد اپنے قرابت داروں کا ڈر ہے، اس میں بھی اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ یہاں مال کی وراثت مراد ہے، اس لیے کہ زکریا علیہ السلام کو اپنی موت کے بعد اپنے اقرباء سے یہ خوف نہیں تھا کہ وہ آپ کا مال لے لیں گے۔ کیونکہ یہ ڈرنے کی کوئی چیز نہیں ہے، ایسا عموماً ہوتا ہے، اور پھر زکریا علیہ السلام بڑے دولت مند بھی نہ تھے، بلکہ بڑھئی کا کام کرتے تھے اور اپنے ہاتھوں کی کمائی کھاتے تھے۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں مذکور ہے۔[2] اور زکریا علیہ السلام ایسے بھی نہ تھے کہ اپنی ضرورت وخوراک سے زیادہ مال بچا کر ذخیرہ اندوزی کرتے رہے ہوں کہ اس کی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ سے اولاد کی شکل میں وارث کا مطالبہ کیا ہو، پس تمام قرائن و توضیحات ا س با ت کی دلیل ہیں کہ مذکورہ دونوں آیات میں نبوت کی وراثت اور اس کی ذمہ داریاں سنبھالنا مراد ہے۔[3] امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’زکریا علیہ السلام نے ایسی اولاد کے لیے دعا نہیں کی تھا جو آپ کے مال کا وارث بنے اس لیے کہ انبیاء کے مال کا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ آیت کریمہ کی یہی درست اور راجح تفسیر ہے، بلکہ زکریا علیہ السلام نے ایسی اولاد مانگی تھی جو ان کے’’علم‘‘ اور نبوت کا وارث ہو، نہ کہ مال کا،کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: ((إِنَّا مَعْشَرَ الْاَنْبِیَائِ لَا نُوْرَثُ، مَا تَرَکْنَاہُ صَدَقَۃٌ۔))[4]
Flag Counter