Maktaba Wahhabi

238 - 1201
’’ہم انبیاء کی جماعت کا کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو کچھ چھوڑیں، صدقہ ہے۔‘‘ مختصر یہ کہ یہ حدیث، فرمان الٰہی وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ کی ماثور تفسیر اور زکریا علیہ السلام کے قول: فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا ﴿٥﴾ يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ ۖکی صریح ترجمانی ہے اور اس مسئلہ میں وارد شدہ عمومی احکامات کی تخصیص ہے۔ سلیمان علیہ السلام نے بھی اپنے باپ داؤود علیہ السلام سے وراثت میں مال نہیں حاصل کیا تھا، بلکہ انھیں علم اور حکمت وراثت میں ملی تھی، جیسا کے یحییٰ علیہ السلام کو آل یعقوب سے یہی چیز یں وراثت میں ملی تھیں روافض کے علاوہ بقیہ علماء مفسرین نے یہی تفسیر کی ہے۔ [1] اس مقام پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وجوب میراث کے مسئلہ میں روافض تناقض کا شکار ہیں اور خود اپنی دلیل کی مخالفت کرتے ہیں، اس کی تفصیل یہ ہے کہ میراث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا وارث صرف فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ٹھہراتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازاواج مطہرات اور عصبہ (اقربائ) کی شکل میں دیگر ورثاء کو اس سے محروم کردیتے ہیں، اس طرح جن آیات کے عمومی خطاب سے اپنے مخالف پر حجت قائم کرتے ہیں وہ خود ہی ا س کی مخالفت کرتے ہیں، چنانچہ صدوق نے اپنی سند سے ابو جعفر الباقر سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا’’نہیں‘‘ ہر گز نہیں۔ اللہ کی قسم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وارث صرف فاطمہ تھیں، عباس رضی اللہ عنہ ، علی رضی اللہ عنہ آپ کے وارث نہیں تھے۔ علی علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاہتھیار وغیرہ اس وجہ سے لے لیا تھا کہ آپ کی طرف سے قرض سے ادا کیا جائے۔ [2] اسی طرح کلینی، صدوق اور طوسی نے اپنی اپنی سند سے باقر سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا: ’’علی علیہ السلام ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کے وارث ہوئے اور فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ترکہ کی وارث ہوئیں۔‘‘ [3] اتنا ہی نہیں بلکہ دوسرے مقامات پر بعض روافض مصنّفین نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بھی وراثت سے محروم کیا ہے، ان کا عقیدہ ہے کہ عورتیں زمین اور غیر منقولہ جائداد کی وارث نہیں بن سکتیں، اس سلسلہ میں ان کے یہاں متعدد روایات منقول ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ ابو جعفر صادق نے فرمایا: عورتیں زمین اور غیر منقولہ جائداد کی وارث نہیں ہوسکتیں۔[4] صدوق اپنی سند سے میسر (راوی) سے روایت کرتے ہیں کہ میسر کا بیان ہے کہ میں نے ابوجعفر صادق سے پوچھا: عورتوں کو میراث میں کیا مل سکتاہے؟ تو آپ نے فرمایا: زمین اور غیر منفقولہ جائداد میں عورتوں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔[5] اس فتویٰ اور عقیدہ کے اعتبار سے یہ بات صاف ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا مطلوبہ میراث کی مستحق نہ تھیں، چہ جائے کہ اس کے لیے اس حدیث سے استدلال کیا جائے ’’نَحْنُ مَعَاشَرُ الْاَنْبِیَائِ لَانُوْرَثُ‘‘[6] کیونکہ جب عورت زمین اور غیر منقولہ جائداد کی وارث نہیں ہوسکتی تو فاطمہ رضی اللہ عنہا جو کہ ایک خاتون تھیں۔ان
Flag Counter