Maktaba Wahhabi

241 - 1201
کے اہل بیت میں سے کسی کو اپنا حق ضرور لے لینا چاہیے تھا، کیونکہ اب حکومت انھیں کے ہاتھوں میں تھی ورنہ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ دعویٰ صحیح نہیں۔ [1] حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’روافض نے اس مقام پر بڑی جہالت ونادانی کا ثبوت دیا ہے اور ایسی کذب بیانی کی ہے جس کی حقیقت سے وہ خود ہی ناواقف ہیں، انھوں نے غیر ضروری باتوں میں خود کو الجھا رکھا ہے، اگر یہ لوگ معاملات کی حقیقت سمجھنے کی کوشش کرتے تو صدیق کی فضیلت کا ضرور اعتراف کرتے اور آپ کی دلیل ومعذرت کو ضرور قبول کرتے، لیکن کیا کیا جائے یہ عجیب قوم ہے، متشابہ اور لوچ لچر دلائل سے استدلال کرتی ہے اورصحابہ وتابعین اورہر دوراورہر جگہ کے معتبر علمائے اسلام کے یہاں جو باتیں مسلَّم انھیں چھوڑ دیتی ہے۔‘‘ [2] سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ابوبکر رضی اللہ عنہ سے رضا مندی: فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں صحیح روایات سے ثابت ہے کہ میراث سے متعلق حدیث نبوی سننے کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ سے راضی ہوگئیں اور رضامندی ہی کی حالت میں ان کی وفات ہوئی، امام بیہقی نے اپنی سند سے بروایت شعبی نقل کیا ہے کہ انھوں نے کہا جب فاطمہ رضی اللہ عنہا بیمار ہوئیں تو ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کے پاس گئے اور ملنے کی اجازت مانگی، علی رضی اللہ عنہ نے کہا: ابوبکر ( رضی اللہ عنہ ) آئے ہیں اور تم سے ملنے کی اجازت مانگتے ہیں ؟ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ کیا آپ کو پسند ہے کہ میں انھیں اجازت دے دوں؟ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں، کوئی حرج نہیں، پھر آپ نے اجازت دے دی، آپ ان کے پاس گئے اور انھیں یہ کہتے ہوئے منانے وخوش کرنے لگے کہ اللہ کی قسم ! میں نے گھر بار، جائداد، خاندان اور اہل وعیال کو صرف اللہ، اس کے رسول، اور آپ اہل بیت کی رضامندی کے لیے چھوڑ ا ہے، پھرانھیں رضامند کرنے لگے، یہاں تک کہ آپ ان سے خوش ہوگئیں۔ [3] حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس حدیث کی اسناد جید اور قوی ہیں اور بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ عامرالشعبی نے اس روایت کو براہ راست علی رضی اللہ عنہ سے سنا ہے یا اس سے سنا جس نے علی رضی اللہ عنہ سے سنا ہے۔[4] اس حدیث سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خلاف فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ناراضی کو لے کر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ہدف تنقید بنانے والے روافض کے اعتراضات بے بنیاد ہوجاتے ہیں اور اگر معاملہ کے آغازمیں ابوبکر پر وہ ناراض ہی ہوگئی تھیں، توبھی کوئی معیوب بات نہیں، اس لیے کہ اپنی زندگی کے آخر میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ملاقات کے بعد وہ آپ سے خوش بھی ہوگئیں اور رضامندی ہی کی حالت میں ان کی وفات ہوئی۔[5]
Flag Counter