ان کا تھوڑا سا مال نہ دلائیں؟ جب کہ یہ بہت معمولی بات تھی۔[1] عباسی خلیفہ ابو العباس السفاح نے اسی مسئلہ میں اپنے بعض مناظرین کے خلاف خلفائے راشدین کے اجماع سے دلیل قائم کی تھی، علامہ ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’تلبیس ابلیس‘‘ میں اس واقعہ کو نقل کیا ہے کہ ’’سفاح کے بارے میں ہمیں معلوم ہوا کہ ایک دن انھوں نے خطبہ دیا، دوران خطبہ ایک آدمی اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا، میں اولاد علی میں سے ہوں، اے امیرالمومنین! ظالم کے خلاف میری مدد کیجیے، خلیفہ نے پوچھا تم پر کس نے ظلم کیا ہے؟ اس نے کہا: میں آل علی میں سے ہوں اور ابوبکر نے فاطمہ ( رضی اللہ عنہا ) کو فدک کی زمین وراثت میں نہ دے کر مجھ پر ظلم کیا، خلیفہ نے پوچھا، اور یہ ظلم تم پر ایسے ہو تا رہا ہے؟ اس نے کہا، ہاں، خلیفہ نے پوچھا، ان کے بعد کون ہوا؟ اس نے کہا، عمر، خلیفہ نے پوچھا، اور انھوں نے بھی یہ ظلم روا رکھا؟ اس نے کہا: ہاں، خلیفہ نے کہا: ان کے بعد کون ہوا ؟ اس نے کہا، عثمان، خلیفہ نے کہا، اور انھوں نے بھی یہ ظلم روا رکھا؟ اس نے کہا، ہاں، خلیفہ نے پوچھا: ان کے بعد کون ہوا؟ اب وہ اِدھر اُدھردیکھنے لگا اور بھاگنے کی تاک میں لگ گیا۔ [2] میراث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مسئلہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اجتہاد کی درستگی اور سچائی کا اعتراف خود فاطمہ رضی اللہ عنہ کے بطن سے پیدا ہونے والی اولاد علی کی نسلوں نے بھی کیا۔ امام بیہقی اپنی سند سے فضیل بن مرزوق سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا، زید بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب نے کہا:سنو! اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ کی جگہ میںہوتاتو فدک کی زمین سے متعلق میں بھی وہی فیصلہ دیتا جو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دیا تھا۔[3] اسی طرح ابو العباس قرطبی نے جملہ اہل بیت کا اتفاق نقل کیا ہے کہ وہ لوگ فدک کی زمین کی ملکیت کے کبھی خواہاں نہ ہوئے، بلکہ وہ ہمیشہ اس کی آمدنی کو اللہ کے راستہ میں خرچ کرتے رہے، آپ نے اہل بیت کے ذکر میں سب سے پہلے علی رضی اللہ عنہ ، پھر آپ کی اولاد اور پھر عباس رضی اللہ عنہ کی اولاد کا ذکر کیا ہے جن کے ہاتھوں میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ کی نگرانی تھی، آپ فرماتے ہیں: ’’جب علی رضی اللہ عنہ نے منصبِ خلافت سنبھالا تو ابوبکر، عمر، اور عثمان رضی اللہ عنہم کی عہد خلافت میں جاری کسی نظام میں تبدیلی نہیں کی، اس کی ملکیت سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی، اور نہ ہی اس کی کوئی جائداد تقسیم کی، بلکہ خلافت کی املا ک کے جو مصارف پہلے سے چلے آرہے تھے انھیں سے خرچ کیا، اس کے بعد خلافت حسن بن علی کے ہاتھوں میں منتقل ہوئی، پھر سلسلہ وار حسین بن علی، پھر علی بن حسین پھر حسین بن حسین، پھر زید بن حسین پھر عبداللہ بن حسین پھر آل عباس کے ہاتھوں میں منتقل ہوتی رہی، جیساکہ ابوبکر البرقانی نے اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ بہرحال یہ سب اہل بیت کے بزرگ شرفاء ہیں اور یہ لوگ شیعہ اور ان کے ائمہ حضرات کے نزدیک سب سے زیادہ معتمد اور قابل قدر ہیں، لیکن ان میں سے کسی سے کوئی ایک بھی روایت نہیں ملتی کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ترکہ کو اپنی وراثت اور ملکیت سمجھا ہو، لہٰذا اگر شیعہ حضرات کا دعویٰ سچ ہے تو علی رضی اللہ عنہ یا آپ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |