استاذ ابومعاذ اسماعیلی نے شیعہ وسنی مسالک کے مصادر ورمراجع میں تحقیق وجستجو کرنے کے بعد اپنی کتاب ’’زواج عمر بن الخطاب من ام کلثوم بنت علی بن ابی طالب حقیقۃولیس افترائ‘‘ میں اس رشتہ کو ثابت کیا ہے، اور اس بابرکت شادی پر جو اعتراضات وشبہات اچھا لے جاتے ہیں ان کا مدلل جواب بھی دیا ہے میں نے اپنی کتاب ’’عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ - شخصیت اور کارنامے‘‘ میں ام کلثوم کی سیرت اور سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ خانگی زندگی پر مختصر روشنی ڈالی ہے۔ بہرحال ام کلثوم بنت علی کے بطن سے عمر رضی اللہ عنہ کی ایک بیٹی جس کا نام رقیہ، اور ایک بیٹا جس کا نام زید ہے پیدا ہوئے۔ کتب سنن میں ان سے متعلق روایت ملتی ہے کہ ایک مرتبہ رات میں بنو عدی بن کعب کا کسی سے جھگڑا ہوگیا، زید بن عمر اِن میں صلح کرانے کی خاطر ان کے پاس گئے، اتفاق سے آپ کوبھی اس میں گہری چوٹ آگئی جس سے سر پھٹ گیا، اور فوراً آپ کی موت ہوگئی، حادثہ کو دیکھ کر آپ کی ماں اس قدر رنجیدہ ہوئیں کہ بے ہوش گئیں، اور اسی عالم میں ان کی بھی وفات ہوگئی، پھر ام کلثوم اور ان کے بیٹے ایک ہی وقت میں دفن کیے گئے، عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی، حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما نے انھیں جنازہ پڑھانے کے لیے آگے بڑھایا تھا، اور خود ان کے مقتدی تھے۔[1] 9۔اے دختر رسول! تمھارے باپ سے زیادہ مجھے کوئی محبوب نہیں، اور ان کے بعد تم سے زیادہ کوئی ہمیں محبوب نہیں: اسلم العدوی سے روایت ہے کہ جب سیّدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت ہورہی تھی تو علی اورزبیر بن عوام رضی اللہ عنہما ، فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بار بار مشورہ لینے جاتے، جب عمر رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر ہوئی تو فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور کہا: اے اللہ کے رسول کی بیٹی! پوری دنیا میں تمھارے والدسے زیادہ مجھے کوئی محبوب نہیں ہے، اور ان کے بعدتم سے زیادہ کوئی محبوب نہیں پھر ان سے گفتگو کی، اتنے میں علی اور زبیر رضی اللہ عنہما پھر آگئے، آپ نے ان دونوں سے کہا: راست روی کے ساتھ واپس لوٹ جاؤ، پھر وہ دونوں بیعت کر کے ہی واپس آئے۔[2] اتنی ہی بات ثابت اور صحیح ہے، اور صحابہ کے حق میں تزکیہ الٰہی اور ان کے پاک نفوس سے میل کھاتی ہے، روافض نے اس روایت میں اضافہ کیا ہے، اورجھوٹ وتہمت کی پیوندکاری کی ہے، اور کہا ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر یہ لوگ تمھارے پاس پھر آئے تو میں انھیں گھر میں بند کر کے گھر کو آگ لگادوں گا، اس لیے کہ بیعت کرنے سے ٹال مٹو ل کرکے یہ لوگ مسلمانوں کی جماعت میں اختلاف پیداکرنا چاہتے ہیں، پھر آ پ وہاں سے چلے آئے، اور ان کے جاتے ہی یہ لوگ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے، تو فاطمہ کہنے لگیں، کیا تم جانتے ہو! میرے پاس عمر آئے اور تم لوگوں کے بارے میں مجھ سے حلف لیا ہے کہ اگر اس گھر میں پھر آئے تو اس گھر کو آگ لگادیں |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |