’’ہم انبیاء کا کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو کچھ چھوڑ کر جاتے ہیں صدقہ ہے۔‘‘ پھر میں نے یہ مناسب سمجھا کہ اسے تمھارے حوالہ کردوں تو میں نے تم سے کہا: اگر تم دونوں کہو تو اسے تمھیں دے دوں بشرطیکہ تم اللہ سے یہ عہد وپیمان کرو کہ اس میں ویسا ہی تصرف کروگے جس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اور پھر میں نے اپنے دور خلافت میں کیا ہے، تم نے کہا کہ وہ مال ہمیں دے دو، میں نے وہ مال تمھیں اس شرط پر دے دیا، میں آپ لوگوں سے حَلفیہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا میں نے وہ مال ان دونوں کو دے دیا یا نہیں؟ سب لوگوں نے کہا: ہاں، پھر آپ علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور حلفیہ اقرار کروایا کہ بتاؤ وہ مال میں نے تم دونوں کو دے دیا یا نہیں؟ ان دونوں نے کہا، ہاں۔ آپ نے پوچھا: تو کیا پھر مجھ سے اس کے علاوہ فیصلہ کروانا چاہتے ہو، اگر تم سے اس مال کا بندوبست نہیں ہوسکتا تو مجھ کو پھر دے دو، میں تم دونوں کی طرف سے اس کے لیے کافی ہوں۔ [1] 11۔ خلافت کے لیے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کی منتخب کمیٹی میں سیّدناعلی رضی اللہ عنہ کا نام اور جنابِ عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان کے حق میں علی رضی اللہ عنہ کے کلمات خیر: 1: اہل شوريٰ میں سیّدنا علي رضی اللہ عنہ کا انتخاب: جب عمر رضی اللہ عنہ پر حملہ ہوااورپھر یقین ہونے لگا کہ آپ عنقریب اس دنیا سے وفات پا جائیں گے تو لوگ آپ کے پاس آنے لگے اور کہا: اے امیرالمومنین! کسی کو خلیفہ مقررکردیجئے ، آپ نے کہا: خلافت کے لیے یہ لوگ زیادہ مناسب ہیں جن سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم راضی رہے ہیں، پھر انھوں نے علی، عثمان، زبیر، طلحہ،سعد بن ابی وقاص اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم کا نام لیا۔[2] پھر ان چھ میں سے خصوصیت کے حامل افراد عبدالرحمن بن عوف، عثمان غنی، اور علی رضی اللہ عنہم کو بلایا، اور انھیں نصیحت کی:[3] عمر مسلمانوں کا امام تھے، اُن پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ جو شخص مسلمانوں کے لیے زیادہ مناسب وبہتر ہو اسے خلیفہ نامز د کردیں، چنانچہ انھوں نے اجتہاد کیا، اور اس فیصلہ پر پہنچے کہ دوسروں سے مقابلہ میں یہ چھ لوگ اس کے زیادہ مستحق ہیں جن سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وفات تک راضی رہے۔ بات وہی صحیح تھی جو عمر رضی اللہ عنہ نے اختیار کی۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ ان چھ افراد کے علاوہ کوئی دوسرا خلافت کا زیادہ حق دار ہے۔ اور پھر ان میں کسی ایک کو اس لیے متعین نہیں کیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسرا اس سے زیادہ مناسب ہو، اس لیے ایک کو متعین کرنے کی بجائے چھ افراد کے درمیان اس کو مشترک رکھنا راجح سمجھا، چنانچہ آپ نے فرمایا کہ معاملہ ان چھ کے حوالے ہے، یہ اپنے میں سے کسی ایک کو منتخب کرلیں۔ دراصل یہ ایک عادل وخیر خواہ امام کا اجتہاد تھا، جو نفس پر ست نہ تھا اور اس کا عمل شورائیت کی تنفیذ کا ایک عملی نمونہ تھا، جس سے متعلق اللہ کا ارشاد ہے: وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ (الشوریٰ:38) ’’اور اُن کے معاملات باہم مشورہ سے چلتے ہیں۔‘‘ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |