Maktaba Wahhabi

266 - 1201
اور فرمایا: وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ (آل عمران:159) ’’اور کام میں ان سے مشورہ کر۔‘‘ بہرحال آپ نے شورائیت کا جو نمونہ پیش کیا وہ مصلحت پر مبنی تھا۔ [1] سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ کمیٹی کے سبھی چھ ممبران تقریباً اہلیت میں برابر ہیں، کیونکہ اگرچہ معمولی اعتبار سے کسی کوکسی پر فضیلت حاصل ہے، لیکن یہ بھی ہے کہ ہر ایک کی نوعیت مختلف ہے، ایسی صورت میں اگر کسی ایک کو متعین کردیا جاتا ہے تو اندیشہ تھا کہ اس کے دورِ حکومت میں اگر کبھی کوئی گڑبڑ واقع ہوئی تو انکار کی انگلیاں میری طرف اٹھ جائیں گی، اس لیے اللہ کا خوف کھاتے ہوئے آپ نے کسی کو متعین نہیں کیا اور جان لیا کہ کسی کو کسی پر ترجیح دینا مناسب نہیں ہے۔ اس طرح آپ نے دومصلحتوں پر نگاہ رکھی، چھ افراد کو نامزد کردیا اس لیے کہ ان سے زیادہ کوئی حق دار نہ تھا، اور پھر کسی ایک کو خاص نہیں کیا، کیونکہ تقصیر میں واقع ہونے کا اندیشہ تھا، اور اللہ کو یہ چیز اپنے بندوں سے مطلوب بھی ہے کہ جتنا ممکن ہوسکے امت کے مصلحت ومفاد کو ترجیح دیں، آپ نے جو کچھ کیا وہ انتہائی پُرحکمت مصلحت پر مبنی تھا۔[2]یہاں یہ اعتراض کرناہرگز درست نہیں ہے کہ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے خلافت کے مشورہ کو صرف چھ افراد کے حوالہ کر کے اپنے متقدین یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے طرزعمل کی مخالفت کی ہے، جیسا کہ روافض شیعہ کا خیا ل ہے، اس لیے کہ اختلاف کی دواشکال ہیں، اختلاف تضاد، جس میں ٹکراؤ پیدا ہوجائے اور اختلاف تنوع، جس میں حقیقت ایک ہوتی ہے صرف شکل بدلی ہوتی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ کا عمل اختلاف تنوع کے قبیل سے تھا۔[3] تمام صحابہ نے بشروچشم قبول کیا، عمر رضی اللہ عنہ کے جدید طرز انتخاب کو میں نے اپنی کتاب’’عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ - شخصیت اور کارنامے‘‘ میں تفصیل سے لکھا ہے۔ مزید معلومات کے لیے برائے مہربانی وہاں رجوع کریں۔ 2:سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کي شہادت کے بعد ان کے حق میں سیّدنا علي رضی اللہ عنہ کے کلمات خیر: ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب عمر رضی اللہ عنہ کو (شہادت کے بعد) ان کے بسترپر رکھا گیا توتمام لوگوں نے میت مبارک کو گھیر لیا اور ان کے لیے اللہ سے دعائے مغفرت کرنے لگے، میت ابھی اٹھائی نہیں گئی تھی، میں بھی وہیں موجود تھا، اسی حالت میں اچانک ایک صاحب نے میرا شانہ پکڑلیا، میں نے دیکھا تو وہ علی رضی اللہ عنہ تھے۔ پھر انھوں نے عمر رضی اللہ عنہ کے لیے دعائے رحمت کی، اور (ان کی میت مبارک کو مخاطب کر کے کہنے لگے) آپ نے اپنے بعد کسی بھی شخص کو نہیں چھوڑا کہ جسے دیکھ کر مجھے یہ تمنا ہوتی کہ اس کے عمل جیسا عمل کرتے ہوئے میں اللہ سے جاملوں اور اللہ کی قسم! مجھے پہلے سے یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ ہی رکھے گا، میرا یہ یقین اس وجہ سے تھاکہ میں نے اکثر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ الفاظ سنے تھے:
Flag Counter