((ذَہَبْتُ اَنَا وَاَبُوْبَکْرٍ وَ عُمَرَ،وَدَخَلْتُ اَنَا وَاَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ ،وَخَرَجْتُ اَنَا وَاَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ۔))[1] ’’ میں، ابوبکر اور عمر گئے، میں، ابوبکر اور عمر داخل ہوئے، میں ابوبکر اور عمر باہر آئے۔‘‘ 3: سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کي ستائش سیّدنا علي رضی اللہ عنہ کي زباني: عبد خیر کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ اہل نجران سیّدناعلی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، میں آپ کے بالکل قریب بیٹھا تھا، میں نے اپنے دل میں سوچا کہ اگر عمر رضی اللہ عنہ کے کسی فیصلہ کو آپ منسوخ کرنا چاہیں گے تو آج ضرور کریں گے۔ اہل نجران آئے آپ کو سلام کہا، اور سامنے صف بندی کرکے بیٹھ گئے، پھر ان میں سے ایک آدمی نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک نوشتہ نکالا اور اسے علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں رکھ دیا اور سب کہنے لگے:اے امیرالمومنین! یہ آپ کے ہاتھوں کی تحریر ہے، اسے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو املا کر وایا تھا۔ راوی کا بیان ہے کہ پھر میں نے دیکھا کہ علی رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوکر رخسار پر بہنے لگے، پھر آپ نے ان کی طرف نگاہ اٹھائی اور کہا: اے نجران والو! یہ سب سے آخری تحریر ہے جو میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھی تھی۔ وہ سب کہنے لگے، پھر جو اس میں لکھا ہے ہمیں دیجئے۔ آپ نے فرمایا: اس کے بارے میں میں تمھیں بتاتا ہوں، سنو! عمر رضی اللہ عنہ نے جو کچھ لیا، اپنے لیے نہیں لیا، بلکہ تمام مسلمانوں کے لیے لیا، اور جولے لیا وہ اس سے بہتر ہے جو تمھیں دیا ہے، اللہ کی قسم! عمر رضی اللہ عنہ نے جو کچھ کیا ہے میں اسے رد کرنے والا نہیں ، عمر رضی اللہ عنہ بڑی سوجھ بوجھ کے مالک، معاملہ فہم تھے۔[2] اس واقعہ کی روشنی میں فقہائے اسلام نے یہ فقہی اصول بنایا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک قاضی، اپنے سے پہلے قاضی کے اجتہاد وفیصلہ کو منسوخ نہیں کرسکتا۔[3] اورآپ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: تم جیسے فیصلہ کرتے تھے ویسے ہی کرتے رہو، یہاں تک کہ ایک جماعت بن جاؤ میں اختلاف سے ڈرتا ہوں۔[4] اور یہی جمہورفقہا کامسلک ہے۔[5] نیز آپ نے فرمایا: عمر رضی اللہ عنہ کی باندھی ہوئی کسی گرہ کو میں نہیں کھول سکتا۔[6] 4: سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ اس محل میں قیام کرنا پسند نہیں کرتے تھے اس لیے میں بھي پسند نہیں کرتا: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ جب معرکۂ جمل سے فارغ ہوئے تو بصرہ پہنچے، اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب مکہ واپسی کا ارادہ کیا تو آپ نے اس کا انتظام فرمایا، پھر بصرہ سے کوفہ گئے اور 12/ رجب 36 ھ بروز دو شنبہ وہاں پہنچے، آپ سے |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |