عموم اور مکدّرات خلط ملط ہو چکے ہیں۔‘‘ لَمْ یَرْزُقُوْہَا بِعَقْلٍ عِنْدَ مَا قُسِمَتْ لٰکِنَّہُمْ رُزِقُوْہَا بِالْمَقَادِیْرِ ’’جس وقت روزی کی تقسیم ہوئی تو اپنی عقل کی بنا پر یہ اس سے نہیں نوازے گئے، بلکہ تقدیروں کے باعث اور اس کے حق دار بنے۔ ‘‘ کَمْ مِنْ اَدِیْبٍ لَبِیْبٍ لَا تُسَاعِدُہُ وَ مَائِقٍ نَالَ دُنْیَاہُ بِتَقْصِیْرِ ’’کتنے ہی ایسے ادیب اور پختہ عقل لوگ ہیں کہ روزی جن کا ساتھ نہیں دے رہی ہے اور کتنے ایسے کند ذہن اور بے وقوف ہیں جو نااہلی اور کمیوں کے باوجود دنیا سے مالا مال ہیں۔‘‘ لَوْ کَانَ عَنْ قُوَّۃٍ أَوْ عَنْ مُغَالَبَۃٍ طَارَ الْبَزَاۃُ بِأَرْزَاقِ الْعَصَافِیْرِ[1] ’’اگر روزی طاقت اور چھین جھپٹ کرنے سے ملتی تو گوریّوں کی روزیاں باز لے اڑتے۔‘‘ 4۔ سچائی کے بارے میں: فَلَا تَصْحَبْ اَخَا الْجَہْلِ وَ إِیَّاکَ وَ إِیَّاہُ ’’جاہل کی صحبت نہ اختیار کرو ، اس سے بچتے رہو‘‘ فَکَمْ مِنْ جَاہِلٍ اَرْدَی حَلِیْمًا حِیْنٌ آخَاہ ’’کتنے ہی ایسے جاہل ہیں کہ جب کسی بردبار نے اس سے دوستی کی تو اس نے اسے ہلاکت کے گڈھے ہی میں دھکیلا۔‘‘ یُقَاسُ الْمَرْئُ بِالْمَرْئِ إِذَا مَا ھُوَ مَا شَاہُ ’’جب دو آدمی ایک ساتھ چلتے ہوں تو ایک کو دیکھ کر دوسرے پر قیاس کیا جاتا ہے۔‘‘ وَ لِلشَّیْٔ مِنَ الشَّیِٔ مَقَایِیْسٌ وَ اَشْبَاہُ ’’ہر چیز کا اسی کے ہم مثل اور مشابہت سے پیمانہ مقرر ہوتا ہے۔‘‘ قِیَاسُ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ اِذَا مَا ہُوَ حَاذَاہُ ’’جب ایک جوتا دوسرے جوتے کے برابر ہوتا ہے تبھی ایک کو دوسرے سے ناپا جاتا ہے۔‘‘ وَ لِلْقَلْبِ عَلَی الْقَلْبِ دَلِیْلٌ حِیْنَ یَلْقَاہُ[2] ’’ہم خیال دل میں آپس میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔‘‘ 5۔ تواضع اور قناعت کے بارے میں: حَقِیْقٌ بِالتَّوَاضُعِ مَنْ یَّمُوْتُ وَ یِکْفِی الْمَرْئَ مِنْ دُنْیَاہُ قُوْتُ ’’مرنے والے کے لیے تواضع ہی مناسب ہے او رانسان کے لیے بقدر گزارہ روزی کافی ہے۔‘‘ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |