Maktaba Wahhabi

519 - 1201
ہے۔ او ریہ اس بات کی دلیل ہے کہ اصحابِ افضلیت ہرحال میں استقامت پر قائم رہے اور ہمیشہ شریعت کی موافقت کی اور مخالفت سے دور رہے۔[1] علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے اصحاب رسول کی اتباع کے وجوب پر قرآنی آیات کی روشنی میں نہایت بہترین اور مفصل گفتگو کی ہے۔[2] سنت سے دلائل: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((خَیْرُ النَّاسِ الْقَرْنِ الَّذِیْ أَنَا فِیْہِ ثُمَّ الثَّانِیْ ثُمَّ الثَّالِثُ۔))[3] ’’لوگوں میں سب سے بہتر میری اس صدی کے لوگ ہیں پھر دوسری پھر تیسری صدی کے۔‘‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اس بات کا متقاضی ہے کہ خیر کے ہر میدان میں انھیں مقدم تسلیم کیا جائے گا، بالخصوص درستگی تک پہنچنے میں ان کی کامیابی پر کامل اعتماد ہو۔[4] پس وہ صحابہ تمام تر فضائل میں دوسروں سے افضل ہیں، علم و عمل کی فضیلت ہو، یا دین، عبادات اور دینی توضیح و تفسیر کی فضیلت ہو، ہر مشکل مسئلہ کی صحیح توضیح کے وہی مستحق ہیں، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار کوئی ملحد ہی کرسکتا ہے، مسلمان نہیں۔[5] عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَا مِنْ نَبِیٍّ بَعَثَہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ إِلَّا کَانَ لَہٗ فِیْ أُمَّتِہٖ حَوَارِیُّوْنَ وَأَصْحَابٌ یَأْخُذُوْنَ بِسُنَّتِہِ وَ یَقْتَدُوْنَ بِأَمْرِہٖ۔))[6] ’’اللہ تعالیٰ نے جتنے انبیاء مبعوث کیے ان کی امت سے ان کے مددگار اور ساتھی رہے، جو ان کی سنت پر عمل اور ان کے حکم کی تعمیل کرتے رہے۔‘‘ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے صحابہ کی افضلیت اور علم و عمل اور اخلاص میں عالی مقام ہونے پر استدلال کیا ہے۔[7] آثار صحابہ سے دلائل: حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اے قراء کی جماعت! ان لوگوں کا راستہ اپناؤ جو تم سے پہلے تھے، اللہ کی قسم! اگر تم نے اس پر استقامت اختیار کی تو خوب سبقت لے جاؤ گے اور اگر اسے چھوڑ کر دائیں بائیں بھٹکے یقینا بہت گمراہ ہوجاؤ گے۔[8] علامہ خطیب نے اپنی سند سے عامر الشعبی سے روایت کی ہے کہ وہ (تابعین) اصحابِ رسول سے جو کچھ بیان کریں اسے مان لو۔[9]
Flag Counter