امت اپنے سے پہلی قوموں کے طریقوں پر چلے گی۔ آج شیعوں میں بالکل یہی چیز دیکھنے میں نظر آرہی ہے۔[1] روافض شیعہ کے ارتقائی ادوار و مراحل روافض شیعہ کی نشو ونما متعدد مراحل میں ہوئی اورکئی ادوار گزرنے کے بعد وہ مستقل نام اور مخصوص عقیدہ کے ساتھ ایک فرقہ کی شکل میں وجود میں آئے، نشو ونما کے تاریخی مناظر میں انھیں چار بنیادی مراحل میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: 1۔ پہلا مرحلہ: عبداللہ بن سبا کی دعوت کا مرحلہ، جس میں اس نے عقیدہ ’’رجعت‘‘، ’’وصیت بحق علی‘‘ اور مسئلہ خلافت کو لے کر علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ بقیہ خلفائے راشدین میں طعن و تشنیع کی دعوت دی، جس پر آج رافضی عقائد کی عمارت کھڑی ہے، واضح رہے کہ ابن سبا کے گمراہ کن عقائد کی ترویج و اشاعت میں دو باتیں بہت معاون ثابت ہوئیں۔ ٭ اپنی دعوت کے لیے مناسب ماحول کا انتخاب، جیسا کہ تاریخ طبری کے حوالہ سے آپ پڑھ چکے ہیں کہ وہ خود مختلف شہروں میں منتقل ہوتا رہا اور مصر و عراق وغیرہ میں اپنے نمائندوں کو اپنے عقیدہ کے پرچار کے لیے بھیج دیا۔[2] اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو آبادیاں عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ابھی جلد ہی اسلام لائی تھیں اور جہاں کے باشندوں نے مکمل طور سے اسلام کو اس کے صحیح اصولوں پر نہیں سمجھا تھا، نہ انھیں شرعی علوم اور دینی فقہ پر عبور حاصل تھا، وہ اس دعوت کا شکار ہوگئیں اور وہاں اس نے اپنے پر نکالے۔ مزید برآں یہ نو مسلم معاشرہ اصحاب رسول سے بہت دور ہونے کی وجہ سے نہ دینی علوم حاصل کرسکا اور نہ ان کی تربیت سے فیض یاب ہو پایا، کیونکہ یہ لوگ حجاز میں رہتے تھے۔ ٭ ابن سبا نے ایک طرف اپنی دعوت کے لیے اس سادہ لوح معاشرہ کو استعمال کیا اور دوسری طرف نہایت چالاکی و عیاری کے ساتھ اپنی دعوت کو پردۂ خفا میں رکھا، اپنی دعوت کو علی الاعلان نہیں پھیلایا، بلکہ انھیں لوگوں کو اپنا نشانہ بنایا جو جاہل و سادہ لوح تھے، یا وہ بدطینت تھے، جنھوں نے اسلامی قوت کے سامنے اپنے شاہان مملکت کے تخت و تاج کو زمین بوس ہوتے دیکھ کر بظاہر اسلام کا لبادہ اوڑھ لیا تھا اور اندر سے مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے تھے، جیسا کہ تاریخ طبری کے حوالہ سے میں ابن سبا کے بارے میں لکھ چکا ہوں کہ اس نے مختلف مسلم آبادیوں میں اپنے نمائندوں کو بھیج دیا تھا اور جو اس کے ہم خیال تھے ان سے خط و کتابت کرکے اپنی خفیہ تنظیم قائم کرلی تھی۔[3]طبری نے ان کی نقل و حرکت ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انھوں نے اپنا دائرہ بہت وسیع کرلیا تھا، ظاہر کچھ کرتے تھے اور باطن میں کچھ رکھتے۔[4] 2۔ دوسرا مرحلہ: دوسرا مرحلہ اس عقیدہ کے اظہار اور اعلانیہ بیان سے شروع ہوتا ہے، چنانچہ جب عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوگئی، |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |