Maktaba Wahhabi

667 - 1201
علاوہ کسی میں طاقت وقوت نہیں۔‘‘[1] 4۔اختلاف رائے سے محبت میں فرق نہیں پڑتا: یہ بات اس فتنہ کے وقت پیچھے رہنے والے صحابہ کرام پر مکمل طور سے صادق آتی ہے، ان کے آراء وخیالات میں اختلاف ضرو رتھا، لیکن دل میں ایک دوسرے کے خلاف کدورت کبھی نہ پیدا ہوئی۔ اس موقع پر کوفہ میں جو واقعہ پیش آیااسے میں پورا پورا نقل کردینا مناسب سمجھتا ہوں۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ابو وائل سے روایت ہے کہ ابو موسیٰ اور ابومسعود رضی اللہ عنہما دونوں عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کے پا س گئے، جنھیں علی رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ کے پاس لوگوں کو لڑنے کے لیے تیار کرنے کی غرض سے بھیجا تھا۔ ان دونوں نے عمار رضی اللہ عنہ سے کہا: مسلمان ہونے کے بعد تمھاری سب سے زیادہ بری بات جو ہم نے دیکھی ہے وہ تمہارا اس کام میں جلدی کرنا ہے۔ جو اب میں عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: مسلمان ہونے کے بعد تم دونوں کی سب سے زیادہ بری بات جو میں نے بھی دیکھی ہے وہ تم لوگوں کا اس کا م میں دیر کرنا ہے اور ایک روایت میں ہے کہ اس پر ابو مسعود رضی اللہ عنہ نے جو کہ ایک مال دار آدمی تھے کہا: اے غلام ! دو حُلّے لاؤ۔ چنانچہ انھوں نے ایک حُلّہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو دیا اور دوسرا عمار کو اور کہا کہ آپ دونوں بھائی کپڑا پہن کر جمعہ پڑھنے چلیں۔[2] آپ دیکھ رہے ہیں کہ ابومسعود اور عمار رضی اللہ عنہما دونوں ایک دوسرے کو غلطی پر سمجھ رہے تھے، پھر بھی ابو مسعود رضی اللہ عنہ نے عمار رضی اللہ عنہ کو نماز جمعہ کے لیے ایک حُلّہ دیا، اس لیے کہ ان کے جسم پر سفر اور جنگ کا جو کپڑا تھا وہ کافی گندا ہوچکا تھا۔ یہ ہیئت دیکھ کر ابو مسعود رضی اللہ عنہ کو گوارا نہ ہوا کہ عمار رضی اللہ عنہ اسی کپڑے میں نماز جمعہ پڑھیں۔ یقینا ان کا یہ برتاؤ انتہائی محبت کی دلیل ہے، حالانکہ درپیش فتنہ میں دونوں ایک دوسرے کے خلاف موقف رکھتے ہیں۔عمار رضی اللہ عنہ کا خیال ہے کہ ابو موسیٰ اور ابو مسعود کا سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی تائید میں تاخیر کرنا عیب ہے اورابو موسیٰ وابو مسعود کا خیال ہے کہ عمار کا علی رضی اللہ عنہ کی تائید میں جلدی کرنا عیب ہے اور ہر ایک کے پاس اپنے اپنے خیالات میں اطمینان بخش دلائل تھے جو لوگ شرکت کرنے سے پیچھے ہٹ رہے تھے ان کے سامنے بحالت فتنہ لڑائی میں شرکت کرنے اور مسلمانوں پر ہتھیار اٹھانے کی ممانعت پرمشتمل احادیث تھیں اور عمار جو کہ باغیوں سے قتال کے بارے میں علی رضی اللہ عنہ کے موقف کی تائید میں تھے، ان کے سامنے اللہ کا یہ ارشاد بطور دلیل تھا: فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِ (الحجرات:9) ’’اس گروہ سے جو کہ زیادتی کرتا ہے لڑو۔‘‘ مسلمانوں کے باہمی قتال میں شرکت سے ممانعت والی احادیث اور اس کی وعید کو ایسے شخص پر محمول کرتے تھے جو اپنے مسلمان بھائی پر ظلم وتعدی کررہا ہو۔بہرحال اس فتنہ میں دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کے قتل کو نصب
Flag Counter