Maktaba Wahhabi

1039 - 1201
شیعی عالم ’’الحر العاملی‘‘ ابوعبداللہ کی مذکورہ روایات پر نوٹ لکھتے ہوئے کہتے ہیں: یہ ممانعت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر ائمہ شیعہ کی قبروں کے علاوہ کے لیے ہے، مزید یہ کہ ممانعت والی روایت میں ’’کرہ‘‘ کا لفظ تحریم کے لیے نہیں، تنزیہ کے لیے ہے۔ [1] جب کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ مذکورہ روایات میں عموم کا صیغہ بالکل واضح ہے اور تحریم کی دلالت بھی بالکل صاف ہے۔ عاملی کے پاس اس بات کے علاوہ کوئی دلیل نہیں ہے کہ اس کی گروہ کے کچھ لوگوں کے عقیدہ کا یہ ایک حصہ ہے، اور ان کی روایات میں اس کا تذکرہ ہے اور بس۔ حالانکہ شذوذ و تفرد خود بطلان کی دلیل ہے، کیونکہ وہ کتاب اللہ، سنت رسول اور اجماع امت کہ جس میں اہل بیت بھی شامل ہیں اور جن سے ممانعت کے اقوال ثابت ہیں، کے خلاف آیا ہے۔ یہ حرمت اس طرح بھی موکد ہے کہ اس سے شرک تک پہنچنے کے راستہ ہموار ہوتے ہیں، مزید برآں اس حرمت میں ایک حکمت اور مصلحت پوشیدہ ہے یعنی وسیلۂ شرک کا خاتمہ، اس میں کسی کی قبر کی تفریق نہیں ہے، بلکہ ائمہ و صلحاء کی قبروں سے اس خطرناکی میں واقع ہونے کا زیادہ اندیشہ اور امکان ہے چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ اولیاء و صلحاء کی عقیدت میں غلو ہی سے شرک کی بنیاد پڑی۔[2] 4۔ ائمہ کو تحلیل و تحریم (حلال و حرام) کا حق حاصل ہے: امامیہ شیعہ کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) علی اور فاطمہ کو پیدا کیا، یہ لوگ ایک ہزار سال زندہ باقی رہے، پھر اللہ نے کائنات کی بقیہ مخلوقات کو پیدا کیا اور ان لوگوں کو ان مخلوقات کا مشاہدہ کرایا، اور ان کی اطاعت دیگر مخلوقات پر لازم کردی، ساری مخلوق کے امور ومعاملات کو ان کے سپرد کردیا، اب وہ لوگ جو چاہتے ہیں حلال کرتے ہیں اور جو چاہتے ہیں حرام کرتے ہیں۔[3] بزرگ شیعہ عالم مجلسی نے اس عبارت کی تشریح میں لکھا ہے کہ ان کی اطاعت دیگر مخلوقات پر لازم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تمام چیزوں حتّٰی کہ زمین و آسمان کی تمام تر جمادات پر ان لوگوں کی فرماں برداری و تابع داری کو واجب کردیا گیا، مثلاً چاند کا دو ٹکڑے ہونا، درخت کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنا، کنکریوں کا تسبیح کرنا وغیرہ ان کی تابعداری ہی کا مظاہرہ تھا اور ساری مخلوق کے امور و معاملات کو ان کے حوالہ کردیا یعنی انھیں تحلیل و تحریم اور عطا کرنے یا روک لینے کا حق دے دیا۔[4] شیعہ علامہ مفید نے ’’الاختصاص‘‘ میں اور مجلسی نے ’’بحار الانوار‘‘ میں ابوجعفر کے حوالہ سے اسی بات کو صریح الفاظ میں اس طرح لکھا ہے کہ جس کے لیے ہم نے ظالموں کا مال حلال کردیا[5] اور وہ اسے کر گزرا تو
Flag Counter