Maktaba Wahhabi

150 - 1201
(5) ہجرت مدینہ سے غزوۂ احزاب تک سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے اہم کارنامے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ پہنچ گئے اور استقرار و اطمینان کی سانس لی تو اس کے بعد اسلامی مملکت کی بنیادیں استوار کرنے کی تیاری کرنے لگے، چنانچہ مہاجرین وانصار کے درمیان مؤاخاۃ (بھائی چارگی) قائم کی، پھر مسجد کی بنیاد رکھی، پڑوس کے یہودیوں سے امن کا معاہدہ کیا، قرب و جواب میں سرایا اور خفیہ دستے بھیجنے لگے، اورایک نئے معاشرہ کی اقتصادی، تعلیمی اور تربیتی تعمیر و ترقی میں لگ گئے، اورعلی رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ رہے، آپ کے احکامات کو عملی جامہ پہناتے اور آپ کی ہدایت رہنمائی پر عمل کرتے رہے۔ مدینہ میں مؤاخاۃ (بھائی چارہ): رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب اور سہل بن حنیف رضی اللہ عنہما کے درمیان مؤاخاۃ کا رشتہ قائم کیا۔[1] اس ضمن میں بعض علما نے یہ بحث چھیڑی ہے کہ کیا مکہ میں بھی ان مہاجرین کے درمیان کوئی مؤاخاۃ قائم ہوئی تھی، چنانچہ بلاذری نے اشارہ کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت سے پہلے مکہ میں راہ حق میں مرمٹنے کے جذبہ کو پروان چڑھانے اور ایک دوسرے کی غمخواری کے لیے مسلمانوں میں باہمی مؤاخاۃ کا رشتہ قائم کیا تھا، چنانچہ سیّدنا حمزہ اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما کے درمیان، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے درمیان، عثمان بن عفان اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما کے درمیان، زبیر بن عوام اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کے درمیان، عبیدہ بن حارث اور بلال حبشی رضی اللہ عنہما کے درمیان، مصعب بن عمیر اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما کے درمیان، ابوعبیدہ بن جراح اور سالم مولیٰ ابوحذیفہ رضی اللہ عنہما کے درمیان، سعید بن زید بن عمرو بن نفیل اور طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہما کے درمیان اور اپنے اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے درمیان مؤاخاہ قائم کی تھی۔[2] بلاذری متوفی 276ھ سب سے قدیم مؤرخ ہیں، جنھوں نے مکہ میں مؤاخاۃ کا ذکر کیا ہے، بعد میں ان کی متابعت کرتے ہوئے ابن عبدالبر متوفی 463ھ نے بھی اس کا ذکر کیا ہے، لیکن بلاذری سے نقل کرنے کی صراحت نہیں کی ہے۔ بعد میں ابن سیدالناس نے بھی انھیں دونوں پر اعتماد کرتے ہوئے اس کا ذکر کیا ہے، لیکن صراحت سے کسی کا حوالہ نہیں دیا ہے۔[3]
Flag Counter