Maktaba Wahhabi

151 - 263
قادر ہے۔ من قدر علی خلق العالم فهو قادر علی بعثهم والانتقام من هم۔[1][2] ’’والطور....الخ‘‘[3]:یہ دلیل نقلی کی طرف اشارہ ہے یعنی کوہ طور گواہ ہے۔ جہاں موسیٰ(علیہ السلام)پر وحی نازل ہوئی۔ ’’ و کتاب مسطور ‘‘ یہ دلیل نقلی کتب سابقہ سے ہے۔ یعنی کتب سابقہ بھی شاہد ہیں کہ جزاء و سزا واقع ہوگی اور اسے کوئی روکنے والا نہیں۔ والبیت المعمور، یہ دلیل وحی کی طرف اشارہ ہے۔ بیت معمور جہاں آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)پر وحی نازل ہوئی تھی وہ بھی گواہ ہے وہاں آپ پر یہی حکم نازل ہوا تھا۔ ’’ والسقف المرفوع ‘‘ یہ اگلی عقلی دلیل ہے۔ آسمان بلند کے احاطہ سے تم باہر نہیں نکل سکتے۔ سمندر نے تمہیں ہر طرف سے گھیر رکھا ہے اسی طرح تم اللہ کے احاطۂ قدرت سے باہر نہیں جاسکتے۔ اور سمندر کی طرح اللہ کا عذاب تمہٰں ہر طرف سے گھیر لے گا۔ ’’ اسی طرح ’’ عذاب ربک۔ تا۔ دافع ‘‘ یہ جواب قسم ہے اور مذکورہ بالا پانچوں شاہد ہیں کہ جزاء سزا ضرور واقع ہوگی اور اسے کوئی نہیں ہٹا سکتا۔ ’’ یوم تمور السماء۔ تا۔ ما کنتم تعملون ‘‘ یہ جزاء و سزا میں سے ایک شق یعنی تخویف اخروی کا بیان ہے۔ جس دن آسمان لرز اٹھے گا۔ اور پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائیں گے۔ وہ جھٹلانے والوں کی ہلاکت کا دن ہوگا۔ جنہوں نے اپنی ساری عمر بیہودگیوں میں گذار دی۔ اس دن ان کو جہنم میں دھکیل کر ان سے کہا جائیگا یہ وہی جہنم ہے جسے تم مانتے نہ تھے کیا یہ بھی جادو ہے؟ کیا یہ بھی تمہیں دکھائی نہیں دے رہا۔ جس طرح دنیا میں حق کو جادو کہا اور دلائل واضحہ دیکھنے کے باوجود کہا ہمیں تو کچھ نظر آتا ہی نہیں۔ اب صبر کرو یا بے صبری کا اظہار کرو، اپنے اعمالِ بد کی سزا کا مزہ تو چکھنا ہی ہوگا۔ ’’ ان المتقین۔ تا۔ هوالبر الرحیم‘‘(رکوع 1)۔ یہ جزاء وسزا کی دوسری شق یعنی بشارت اخروی کا بیان ہے۔ شرک سے بچنے والے جنت کی نعمتوں میں خوش و خرم ہوں گے اور عذاب سے محفوظ ہوں گے۔ ہر قسم کے ماکولات و مشروبات حاضر ہوں گے۔ تختوں پر آرام کریں گے۔ حوران بہشتی کی رفاقت ہوگی۔ اونچے رتبے والے مومنوں کی کم درجہ کی مومن اولاد کو جنت میں ان کے آباء واجداد کے اونچے درجے میں جگہ دیجائیگی ہر قسم کے میوے اور ہر قسم کا گوشت مہیا ہوگا۔ شراب طہور کا دور چلتا ہوگا۔ سچے موتیوں کی طرح حسین و جمیل خدام حاضر خدمت ہوں گے اہل جنت آپس میں گفتگو کریں گے کہ ہمیں تو بہت خطرہ اور ڈر تھا۔ لیکن اللہ نے محض اپنے فضل و احسان سے ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا لیا۔ کیونکہ ہم دنیا میں صرف اسی محسن و مہربان کو پکارتے تھے اور اس کی پکار میں کسی کو شریک نہ کرتے تھے۔ اس آیت میں بیان توحید ہے علی سبیل الترقی اور ثمرۂ توحید ہے۔ ’’ فذکر فما انت۔ الایۃ‘‘ یہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کیلئے تسلی ہے۔ آپ وعظ و تبلیغ میں مصروف رہیں آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔
Flag Counter