Maktaba Wahhabi

151 - 1201
امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ مہاجرین کی باہمی مؤاخاۃ کو تسلیم نہیں کرتے اور اس سلسلہ میں وارد شدہ روایات کے بارے میں آپ کی تحقیق یہ ہے کہ وہ سب جھوٹی ہیں، انھیں میں سے یہ روایت بھی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اور علی رضی اللہ عنہ کے درمیان مؤاخاۃ کا رشتہ قائم کیا تھا۔[1] امام ابن القیم بھی مکہ میں مؤاخاۃ کے قائل نہیں ہیں، چنانچہ آپ لکھتے ہیں: ’’بیان کیا جاتاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین کے درمیان باہمی مؤاخاۃ کا رشتہ قائم کیا تھا اور اس میں علی رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ رکھا تھا، لیکن قابل اعتماد پہلی بات ہے۔ (یعنی صرف مؤاخاۃ مدینہ ) کیوں کہ مہاجرین کو آپس میں مؤاخاۃ کی ضرورت نہ تھی، ان کے درمیان اسلامی اخوت، گھریلو رشتے اور خاندانی تعلقات تو قائم ہی تھے، ہاں مہاجرین کا انصار کے ساتھ مؤاخاۃ کرانا اس سے مختلف چیز تھی کہ دونوں دو تھے جنھیں ایک کیا گیا۔‘‘[2] سیرت نبوی پر لکھی گئی قدیم ترین کتب میں بھی مکہ میں مہاجرین کے درمیان مؤاخاہ کا کوئی اشارہ نہیں ملتا ہے، حتی کہ خود بلاذری جنھو ں نے اس کو تحریر کیا ہے اس کی کوئی سند ذکر نہیں کی ہے، بلکہ اس کے لیے صیغہ جہالت یعنی ’’قیل‘‘ بمعنی کہا گیا ہے، سے اس واقعہ کا آغاز کیا ہے، جو کہ اس روایت کے ضعیف ہونے کے لیے کافی ہے، بلکہ مستند محققین کے نزدیک خود بلاذری ضعیف (ناقابل اعتماد) مانے جاتے ہیں، تاہم اگر اس روایت کو صحیح مان لیں تو مکہ میں مؤاخاۃ کا مطلب یہ ہوگا کہ ایسے دو افراد آپس میں ایک دوسرے کے خیرخواہ اور مددگار ہوں گے، یہ نہیں کہ دونوں میں وراثت کے وہ حقوق نافذ ہوں گے۔[3] جسے بعد میں اس فرمان الٰہی سے منسوخ کردیا گیا: وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّـهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴿٧٥﴾ (الانفال:75) ’’اور رشتے دار اللہ کی کتاب میں ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں۔ بے شک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘ نظام مؤاخاۃ کے سبب سے وراثت کے حقوق کو اس آیت میں منسوخ کردیا گیا ہے۔ [4]اور یہ حکم باقی رکھا گیا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے مددگار، خیرخواہ اور پرسان حال ہوں گے۔[5] حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں کہ بعض علماء سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مؤاخاۃ کے قائل نہیں ہیں، وہ اس واقعہ کی صحت کے منکر ہیں او ران کی دلیل یہ ہے کہ مؤاخاۃ کی مشروعیت کا اصل مقصد باہم الفت و محبت کا ماحول پیدا کرنا اور ایک دوسرے کی دل جوئی کرنا تھا اور وہ اس مقصد کے لیے پہلے ہی سے قربان تھے، کوئی
Flag Counter