Maktaba Wahhabi

95 - 1201
اللہ کے ساتھ اپنی جان کی تجارت کی تھی۔[1] سچ ہے کہ علی اوران جیسے دیگر مجاہدین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو کہ صرف اللہ کی رضا اور آخرت کی کامیابی چاہتے تھے انھیں کے بارے میں اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی: وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ ﴿٢٠٧﴾ (البقرۃ:207) ’’اور لوگوں میں سے بعض وہ ہے جو اللہ کی رضا مندی تلاش کرنے کے لیے اپنی جان بیچ دیتا ہے اور اللہ بندوں پر بے حد نرمی کرنے والا ہے۔‘‘ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے اس فدائی مؤقف کے دروس و فوائد: ٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کی منصوبہ سازی کا یہ تقاضا تھا کہ گھر میں آپ کی جگہ پر کوئی ضرور موجود ہو تاکہ خانۂ نبوی کا محاصرہ کرنے والے مشرکین قریش کی نگاہوں کو وہ اپنی حرکت و وجود میں اس طرح مشغول رکھے کہ یہ آپ سے غافل ہوجائیں اور تب تک موقع پاکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس علاقہ سے دور جانکلیں، جہاں خطرات اور اندیشے ہیں۔[2] ٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر بلاتامل علی رضی اللہ عنہ کا لبیک کہنا درحقیقت ایک ایسے سچے سپاہی کی مثال ہے جو دعوت اسلام کے لیے مخلص تھا، اس نے اپنے قائد کی سلامتی کے لیے اپنی زندگی کو پاؤں پر لگا دیا تھا، کیوں کہ قائد کی سلامتی دعوت و تحریک کی سلامتی اور اس کی ہلاکت دعوت کی کمزوری و تباہی کا سبب ہے، علی رضی اللہ عنہ نے شب ہجرت میں بستر رسول پر رات گزار کر ایک گراں قدر قربانی کی مثال قائم کی، وہاں اس بات کا بالکل احتمال تھا کہ نوجوانان قریش کی تلواریں علی رضی اللہ عنہ کے سر پر پڑیں، لیکن آپ نے اس کی قطعاً پرواہ نہ کی، اور صرف ایک بات کے شیدائی رہے کہ دعوت اسلام کے قائد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی طرح محفوظ رہیں۔[3] ٭ مشرکین کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے برسرپیکار ہونے، اور آپ کو جان سے مار دینے کا عزم کرلینے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس امانتیں رکھنا، اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ لوگ عجیب تناقض اور کشمکش کا شکار تھے، ایک طرف وہ لوگ آپ کو جھٹلا رہے تھے، کبھی جادوگر کہتے ا ور کبھی مجنوں کہتے، لیکن دوسری طرف انھیں اپنے اردگرد کوئی ایسا آدمی بھی نظر نہیں آتا تھا جو صدق و امانتداری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر ہو، یہی وجہ تھی کہ وہ اپنی ضروریات کی مہنگی ترین چیزیں اور اہم اموال کہ جن کے ضائع ہونے کا خطرہ ہوتا تھا، آپ ہی کے پاس رکھتے تھے، ان کا یہ طرز عمل اس بات کی دلیل تھا کہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی و امانت پر کسی شک و تردد کی وجہ سے آپ کا انکار نہیں کیا، بلکہ تکبر و غرور، حق کے خلاف سینہ زوری، اپنی قیادت و سرکشی کے زوال کے خوف سے کفر کیا۔[4] فرمان الٰہی اس حقیقت پر مبنی ہے:
Flag Counter