Maktaba Wahhabi

282 - 1201
ان سے پہلے مظلوم ہے، صرف اتنا ہی نہیں، بلکہ ہماری محرف اسلامی تاریخ اور اسے پڑھنے اورماننے والی امت مسلمہ ان مظلومین میں سے ہے جن پر اس خبیث یہودی اور اس کے ہم فطرت اعوان و انصار نے بڑا ستم ڈھایا ہے۔ پس کیا امت مسلمہ کی نئی نسلوں کے لیے وہ وقت ابھی نہیں آیا جس میں وہ اپنی سچی و حقیقی تاریخ اور اس کی سرکردہ ہستیوں کو اچھی طرح پہچان سکیں؟ بلکہ کیا اس دور کے مسلمان ادباء ومؤرخین اب بھی اس بات سے خبردار نہ ہوں گے کہ اللہ سے خوف کھائیں اور تحقیق سے قبل امت کے پاک نفوس (صحابہ کرام) پر انگلی نہ اٹھائیں تاکہ غیروں کی طرح یہ بھی ضلالت کے گڈھے میں نہ جاگریں۔[1] 2۔ محاصرہ کے دوران سیّدناعلی رضی اللہ عنہ کا موقف: سیّدناعثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ سخت ہوگیا اور اتنا سخت کہ آپ کو مسجد میں نماز کے لیے جانے سے روک دیا گیا، لیکن آپ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیل کرتے ہوئے اس مصیبت پر صبر کرتے رہے اور قضاء وقدر پر ایمان رکھنے کے ساتھ ساتھ یہ کوشش کرتے رہے کہ اس مصیبت اور تشویشناک صورتِ حال کا حل نکالاجائے، اسی لیے آپ نے کبھی مسلمانوں کے خون کی حرمت کے موضوع پر خطبہ دیا اور بتایا کہ اسلام کے حق کے علاوہ کسی بھی شکل میں مسلمان کا خون بہانا حرام ہے اور کبھی لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے ان سے اپنے فضائل کا تذکرہ کرتے، اپنی اسلامی خدمات کا ذکر چھیڑتے، اور عشرہ مبشرہ میں سے جو باحیات تھے ان کو اس پر گواہ بناتے رہے۔[2] گویا یہ اشارہ دیتے رہے کہ جس شخص کا ماضی اتنا بہترین ہو اور جس کی اتنی فضیلت ہو کیا اس کے بارے میں یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ وہ دنیا کا اتنا لالچی ہوگا کہ اسے آخرت پر ترجیح دے گا ؟ اور کیا عقل میں یہ بات آتی ہے کہ وہ امانت میں خیانت کرے گا اور امت کے اموال وخون سے اس طرح کھلواڑ کرے گا؟ جب کہ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ اللہ کے یہاں اس کا انجام کتنا بر ا ہے اور اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تربیت پائی ہے آپ نے اسے جنت کی بشارت دی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دوسرے افاضل صحابہ نے بھی اس کا تزکیہ کیا ہے، کیا وہ اس طرح کرسکتا ہے ؟ تاہم بغاوت کی گرفت مدینہ پر اتنی سخت ہوگئی کہ باغیوں ہی نے اکثر نمازوں میں امامت کروانا شروع کردی۔[3] اور جب صحابہ کے سامنے حقیقت عیاں ہونے لگی اور سمجھ گئے کہ ہم سے غلط فہمی ہوئی اور یہ خدشہ ہونے لگا کہ کہیں ناخوشگوار حادثہ نہ پیش آجائے، کیونکہ انھیں دور نزدیک سے یہ اطلاع ہوچکی تھی کہ یہ بغاوت کرنے والے لوگ عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کردیناچاہتے ہیں، تو انھوں نے امیرالمومنین عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو ہم ان باغیوں کا مقابلہ کریں اور اس شورش کو مدینہ سے باہرنکال دیں، لیکن آپ نے اس سے انکار کردیا، تاکہ کہیں خون ریزی کا سبب آپ نہ بن جائیں۔[4] تاہم بعض ممتاز وبرزگ صحابہ نے اپنے اپنے بیٹوں کو عثمان رضی اللہ عنہ سے پوچھے بغیر ان
Flag Counter