Maktaba Wahhabi

729 - 1201
اس واقعہ کے فوائد و عبرتیں ا:زبیر رضی اللہ عنہ کا یہ قول کہ اے میرے بیٹے! اگر تم قرض ادا کرنے سے عاجز ہو جاؤ تو میرے مالک اور مولیٰ سے اس سلسلہ میں مدد مانگنا: درحقیقت آپ کا یہ فرمان اللہ پر آپ کے پختہ یقین اور قوی ایمان کی دلیل ہے اور اسی کے نتیجہ میں اللہ کی ذات پر سچا اعتماد اور کامل توکل اور مشکلات کے ازالوں و حاجت برآریوں کے لیے اسی کی طرف حقیقی التجاء آشکارا ہوتی ہے، حقیقی مومن کو یہ پختہ یقین ہوتاہے کہ ہر چیز اللہ کے ہاتھ میں ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ جب کبھی کسی مشکل اور تنگی میں پڑتا ہے تو سب سے پہلے اس کے ذہن میں اللہ کے وجود اور ہر چیز پر اس کی قدرت واختیار کا تصور پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ سوچتا ہے کہ اس پریشانی کے حل میں ایک فریق کی حیثیت سے جو دوسری مخلوقات سامنے ہیں وہ سب اللہ کے قبضہ میں ہیں، ان کے دل اللہ کے ہاتھ میں ہیں، وہ انھیں جس طرف چاہتا ہے پھیرتا ہے، لہٰذا ہمیں ہر چیز سے پہلے اس کی طرف پلٹنا چاہیے، اپنی حاجت برآری اور رفع مشکلات کے لیے اسی سے سوال کرنا چاہیے، پھر وہ مومن اللہ کی پیدا کردہ ان اسباب کو اختیار کرتاہے جنھیں اللہ نے مطلوبہ نتائج تک پہنچانے کا ذریعہ بنایا ہے، ایسا مومن ان اسباب کو اختیار کرتے وقت یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ یہ محض اسباب ہیں حقیقی اثر اللہ کی قدرت کا ہے اور وہی اسے بنانے والا ہے، وہ اس بات پر قادر ہے کہ ان اسباب سے اپنی عطا کردہ تاثیر لے لے اور یہ چیزیں مطلوبہ نتائج تک نہ پہنچا سکیں۔[1] ب: کیا زبیر رضی اللہ عنہ مال داروں میں سے تھے؟ ٭ واقعہ مذکورہ کی عبارتیں بتاتی ہیں کہ آپ معروف و مشہور دولت مندوں اور اہل ثروت میں سے نہ تھے، بلکہ آپ کو ہمیشہ تنگی کا احساس رہا اورآپ کے ذمہ جو دوسروں کا قرض تھا آپ کو اس کی فکر دامن گیر تھی۔ آپ ڈر رہے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میری زمین اور مکانات میرے قرض کے لیے کافی نہ ہوں۔ ٭ دوسری دلیل یہ ہے کہ سابقہ عبارتیں بتاتی ہیں کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما اپنے والد محترم کی توقع کے خلاف نہیں سوچتے تھے بلکہ انھیں جیسی توقع کرتے تھے یعنی دونوں کا خیال تھا کہ شاید ہماری موجودہ جائداد سے قرض زیادہ ہو جائے، چنانچہ جب آپ کے والد نے کہا: تمھارا کیا خیال ہے، کیا قرض کی ادائیگی کے بعد بھی ہمارے مال سے کچھ بچ سکے گا؟[2] تو عبداللہ کے پاس کوئی جواب نہ تھا، پس اگر عبداللہ کی توقع اپنے والد کی توقع کے
Flag Counter