Maktaba Wahhabi

730 - 1201
خلاف ہوتی تو ایسے سخت و نازک ترین موقع پر اپنے والد کو نہایت اطمینان بخش جواب دیتے کہ گھبرائیں نہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے آپ کا سوچنا اور آپ کی توقع غلط ہے۔ لیکن ایسا کچھ نہ ہوا، بلکہ صریح الفاظ میں اپنے والد کی توقع کا ساتھ دیا اور جب زبیر رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر تم قرض دینے سے عاجز ہو جانا تو زبیر کے مولیٰ سے مدد مانگنا، تو عبداللہ نے پوچھا: آپ کے مولیٰ کون ہیں؟ گویا انھیں بھی توقع ہوچکی تھی کہ زبیر کے مولیٰ ہی سے مدد لینا پڑے گی، اس موقع پر کسی کے ذہن میں یہ بات نہیں آنا چاہیے کہ زبیر رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ کو اپنے باپ کی جائداد اور پوری ملکیت کا پتا نہیں تھا، نہیں ہرگز نہیں، عبداللہ رضی اللہ عنہ اس وقت پینتیس (35) سال کے ہو چکے تھے، بھلا ایسی عمر میں کون شخص اپنے باپ کا معاون اور اس کی ثروت و جائداد کا جانکار نہیں ہوتا، اور خاص طور سے اگر ایسا شخص اپنے باپ کی سب سے بڑی اولاد ہو۔ خود زبیر رضی اللہ عنہ کا عبداللہ سے یہ پوچھنا کہ تمھار ا کیا خیال ہے کیا قرض دینے کے بعد بھی ہمارے مال سے کچھ بچے گا؟ اس بات کی دلیل ہے کہ عبداللہ کو اپنے والد کے احوال و اموال سے پوری واقفیت تھی، اتنا ہی نہیں، خود عبداللہ صراحت سے کہتے ہیں کہ والد صاحب کے قرض کی ادائیگی کا مسئلہ کوئی آسان کام نہ تھا، کہتے ہیں: ’’اللہ کی قسم! قرض ادا کرنے میں جو بھی دشواری سامنے آئی تو میں نے اس طرح دعا کی، اے زبیر کے مولیٰ! ان کی طرف سے ان کا قرض ادا کرادے، اور ادائیگی کی صورت پیدا ہوجاتی تھی۔‘‘[1] ٭ زبیر رضی اللہ عنہ کے اہل ثروت اور مال داروں میں شمار نہ کیے جانے اور اپنے قرض واملاک سے متعلق اپنی توقع میں سچے ہونے کی تیسری دلیل یہ ہے کہ زبیر رضی اللہ عنہ کے چچا زاد بھائی حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کی جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے ملاقات ہوئی تو کہا: میں سمجھتا ہوں کہ تم پر قرض کا جو اس قدر بوجھ ہے تم میں اس کی ادائیگی کی طاقت نہیں ہے، پس اگر تم پرکچھ قرض رہ جاتا ہے تو مجھ سے کہنا۔[2] ٭ اور چوتھی دلیل یہ ہے کہ عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے پاس آئے، واضح رہے کہ زبیر رضی اللہ عنہ عبداللہ بن جعفر کے بھی چار لاکھ کے مقروض تھے، چنانچہ آئے اور کہا: اگر تم چاہو تو میں یہ قرض چھوڑ سکتا ہوں، لیکن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں، پھر انھوں نے کہا کہ اگر تم چاہو تو میں سارے قرض کی ادائیگی کے بعد لے لوں گا، عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اس پر بھی یہی کہا کہ تاخیر کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔[3] بہرحال یہ دو عظیم و جلیل القدر صحابہ کی شہادتیں ہیں کہ انھیں بھی یہ توقع تھی کہ زبیر رضی اللہ عنہ کے اوپر جس قدر قرض ہے ان کی جائداد سے اسے ادا کرنا ناممکن ہے، اس کے لیے بہرحال دوسروں سے مدد لینے کی ضرورت پڑے گی۔ پھر یہ دونوں صحابہ زبیر رضی اللہ عنہ کے لیے کوئی اجنبی بھی نہ تھے بلکہ دونوں آپ کے قریبی تھے، آپ کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے اور آپ کے احوال سے واقف تھے، ایک ہیں حکیم بن حزام رضی اللہ عنہما جو کہ زبیر کے چچا زاد بھائی ہیں اور
Flag Counter