Maktaba Wahhabi

163 - 1201
یہ عمل ایک عظیم درس ہے جس پر مسلمانوں کو کاربند ہونا چاہیے۔ 7۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت: سیّدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی سفر کا آغاز کرتے تو مدینہ میں سب سے آخر میں فاطمہ رضی اللہ عنہا سے مل کر جاتے اور جب واپس آتے تو سب سے پہلے فاطمہ رضی اللہ عنہا ہی کے گھر آتے۔[1] ابوثعلبہ الخشنی رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی غزوہ یا سفر سے واپس آتے تو سب سے پہلے مسجد میں جاتے، وہاں دو رکعت نماز پڑھتے، پھر فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر آتے، پھر اپنی ازواج مطہرات کے پاس جاتے ۔[2] سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نشست و برخاست کی صفت فاطمہ سے اچھی بتاتے ہوئے کسی کو نہیں دیکھا، وہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتیں، آپ ان کی طرف لپک کر اٹھتے، بوسہ دیتے، اور اپنے پاس بٹھاتے اور جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس جاتے تو وہ آپ کی طرف لپک کر اٹھتیں، پھر آپ کو بوسہ دیتیں اور آپ کو اپنے پاس بیٹھاتیں۔[3] اور دوسری روایت میں ہے کہ آپ کے ہاتھوں کو بوسہ دیتیں۔[4] اور اسامہ بن زید سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَحَبُّ أَہْلُ بَیْتِیْ إِلِیَّ فَاطِمَۃُ۔))[5] ’’میرے اہل بیت میں مجھے سب سے زیادہ محبوب فاطمہ ہیں۔‘‘ جب سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فاطمہ کے ہوتے ہوئے ابوجہل کی بیٹی سے شادی کا ارادہ کیا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے متعلق لوگوں میں خطبہ دیا۔ واضح رہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے متعلق مذکورہ روایت نقل کرنا دونوں کے درمیان حقیقی محبت ہونے کی دلیل ہے، ایسا کوئی معاملہ نہیں کہ دونوں میں ناچاقی رہتی تھی، جیسا کہ تہمت لگانے والے کہتے ہیں، بہرحال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((فَاطِمَۃُ بَضْعَۃٌ مِّنِّيْ فَمَنْ اَغْضَبَہَا اَغْضَبَنِي۔))[6] ’’فاطمہ میرے دل کا ٹکڑا ہے، جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔‘‘ سیّدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا: ((إِنَّ بَنِيْ ہِشَامِ بْنَ الْمُغِیْرَۃِ اِسْتَاذَ نُوْنِيْ أَنْ یَنْکَحُوْا اِبْنَتَہُمْ عَلِیَّ ابْنَ أَبِي طَالِبٍ فَلَا آذَنُ لَہُمْ، ثُمَّ لَا آذَنُ لَہُمْ، ثُمَّ لَا آذَنُ لَہُمْ، إِلَّا أَنْ یُّحِبَّ ابْنُ أَبِيْ طَالِبٍ أَنْ
Flag Counter