اپنے صدقات کے تذکرے میں آپ نے فرمایا: ’’مجھے یاد ہے ایک وقت وہ تھا جب میں بھوک سے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر گزارا کرتا تھا، آج میرے صدقہ کی مقدار چار ہزار دینار تک پہنچ رہی ہے۔‘‘[1] واضح رہے کہ اس صدقہ سے واجبی زکوٰۃ کی ادائیگی مراد نہیں ہے، بلکہ آپ کے اوقاف کی جائداد ہے جس کی آمدنی مذکورہ عدد کے مساوی ہوتی تھی اور وہ فی سبیل اللہ صدقہ ہوتا تھا۔ واجبی زکوٰۃ کا معنی لینا اس لیے صحیح نہیں ہے کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے کبھی کوئی مال جمع ہی نہیں کیا کہ اس کی زکوٰۃ نکالتے۔[2] چنانچہ آپ کی شہادت کے بعد آپ کے فرزند حسن رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اے لوگو! کل تم میں سے ایک ایسا شخص جدا ہوا ہے جس نے سونا، چاندی نہیں چھوڑاہے، صرف سات سو درہم اس کی تحویل میں تھے جو اس کو بیت المال کے مقررہ حصہ میں سے ملے تھے، اس رقم سے وہ ایک خادم خریدنے کا ارادہ کر رہا تھا۔ [3] یعنی وہ علی رضی اللہ عنہ تھے۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اہل خاندان پر احسان کرنے پر ابھارتے تھے، فرماتے: ’’ اپنے خاندان والوں پر احسان کرو، کیونکہ وہی تمھارے دست وبازو ہیں، انھیں سے تمھارا دبدبہ ہوگا اور انھیں سے تمھارا سربلند ہوگا، مشکلات کے وقت وہی تمھارے ساتھی ہیں، جو شخص خاندان کا بزرگ ہو اس کی عزت اور اس پر احسان کرو، اگر کوئی بیمار ہوجائے تو اس کی عیادت کرو، اپنے معاملات میں انھیں بھی شریک رکھو، ان میں اگر کوئی پریشان حال ہو تواس پر آسانی کرو۔‘‘[4] اللہ سے حیائ: حیا مکارم اخلاق کی ایک عظیم ترین قسم ہے۔ یہ ایک ایسی لطیف صفت ہے جو نفس کو پاکیزگی، ضمیر کو زندگی، دینی شعور اور مراقبت الٰہی کو بیداری عطا کرتی ہے، جس انسان میں حیا نہیں ہوگی وہ مہمان نواز، وعدہ وفا، امانت دار اور ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنے والا نہیں ہوگا۔ وہ خوبیوں کی تلاش میں نہ ہوگا کہ انھیں اپنائے اور نہ برائیوں کو پہچانے گا کہ ان سے بچ سکے، حیا باختہ انسان پردہ پوش نہیں ہوتا اور نہ ہی فواحش و منکرات سے باز آتا ہے، ایسے انسانوں کی ایک لمبی قطار ہے کہ اگر ان میں حیاداری نہ ہو تو وہ اپنی ذمہ داریاں نہ ادا کریں، کسی کے حقوق کی رعایت نہ کریں، کنبہ پروری اور صلہ رحمی کے قریب نہ جائیں اور والدین کے ساتھ حسن سلوک سے دور بھاگیں، صرف احساس غیرت و حیا ہی ایک ایسی چیز ہے جو ان اعمال حسنہ کی طرف انھیں راغب کرتی ہے، یہ غیرت یا تو دینی ہوگی جس کے پیچھے بہتر انجام کی امید ہوتی ہے یا دنیا کے سامنے اپنی لاج بچانا مقصود ہوگا، گویا دینی یا دنیاوی اعتبار سے اگر حیا و غیرت کی بات نہ ہو تو شاید انسان مذکورہ اخلاق عالیہ سے دور ہی رہے۔[5] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |