Maktaba Wahhabi

725 - 1201
اور ان کا مال محفوظ رکھتے۔[1] آپ سوچ سکتے ہیں کہ سخاوت و وفا کی یہ کتنی اعلیٰ مثال ہے، یقینا آپ کا یہ کردار اعلیٰ اخلاقی جذبات کا آئینہ دار ہے، جو کسی زندہ ضمیر میں بحیثیت ایک آئیڈیل اور نمونہ ہمہ وقت باقی رہتا ہے اور پھر اسی نمونہ کو سامنے رکھتے ہوئے انھیں جیسے اعلیٰ اخلاق جذبات اور اوصاف محمودہ کی سیادت وبرتری کی خاطر ایک روشن ضمیر انسان اپنی پوری جائداد اور ملکیت کو قربان کردینے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ اس سخاوت و وفا کی راہ میں بار بار بہکانے والے وساوس رکاوٹیں پیدا کرتے رہے ہوں گے، لیکن آپ سخاوت اور تحمل مزاجی کا ثبوت دیتے ہوئے متعدد صحابہ کے ورثاء پر اپنی جائداد خرچ کرتے رہتے، اور ان کے مال کو محفوظ رکھا، حقیقت کی دنیا میں اپنی حیثیت کا یہ ایک منفرد و لازوال نمونہ ہے، اور صحابہ کے نزدیک اخلاقی ترقی کی علامتوں میں سے ایک اہم علامت ہے۔[2] 13۔ زبیر رضی اللہ عنہ کو جنت کی بشارت اور دنیا کو الوداع: زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ معرکۂ جمل کے پہلے رَن میں جنگ سے نکل گئے اور آپ نے میدان کیوں چھوڑا تھا میں پچھلے صفحات میں اس کے اسباب کی وضاحت کرچکا ہوں۔ اس موقع پر آپ اپنے موقف کی وضاحت میں شاعر کا یہ قول بطورِ مثال پیش کرتے تھے: تَرْکُ الْأُمُورِ الَّتِیْ أَخْشَی عَواقِبَہَا فِی اللّٰہِ أَحْسَنُ فِيْ الدُّنْیَا وَ فِيْ الدِّیْنِ ’’جن چیزوں کا اخروی انجام برا ہونے سے میں ڈرتا ہوں، دین اور دنیا دونوں اعتبار سے اس سے کنارہ کش رہنا ہی اچھا ہے۔‘‘ اور کہا گیا ہے کہ آپ نے یہ شعر پڑھا تھا: وَ لَقَدْ عَلِمْتُ لَوْ أَنَّ عِلْمِيْ نَافِعِيْ أَنَّ الْحَیَاۃَ مِنَ الْمَمَاتِ قَرِیْبُ [3] ’’اگر میرا علم میرے لیے مفید ہے تو مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ موت کے بالکل قریب ہوں۔‘‘ معرکۂ جمل سے نکل جانے کے بعد عمرو بن جرموز، فضالہ بن حابس اور نفیع بنوتمیم کے چند اوباشوں نے آپ کا تعاقب کیا اور جب آپ کو پکڑ لیا تو سب نے مل کر آپ کو قتل کرڈالا۔اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ صرف عمرو بن جرموز آپ تک پہنچ سکا تھا، جب وہ آپ کے قریب پہنچا تو کہاکہ مجھے آپ سے ایک ضرورت ہے، آپ نے کہا: قریب آؤ، تب تک آپ کے غلام نے جس کا نام عیطہ تھا، کہا: اس کے ساتھ ہتھیار ہے، آپ نے کہا: آنے دو، اگرچہ ہتھیار لیے ہے، چنانچہ وہ آپ کے قریب گیا اور باتیں کرنے لگا، پھر نماز کا وقت ہوگیا، زبیر رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: نماز پڑھی جائے، اس نے کہا: ہاں نماز پڑھی جائے، پھر زبیر رضی اللہ عنہ ان دونوں کی امامت کرنے کے لیے آگے بڑھے، اسی لمحے عمرو بن جرموز نے آپ پر نیزہ مارا اور شہید کردیا۔اور کچھ لوگوں کا بیان ہے کہ عمرو بن جرموز نے
Flag Counter