Maktaba Wahhabi

726 - 1201
وادی سباع نامی ایک وادی میں آپ کو پکڑا تھا اورآپ قیلولہ کر رہے تھے، اسی حالت میں اس نے آپ پر حملہ کرکے آپ کو شہید کردیا، یہی قول زیادہ مشہور ہے۔ آپ کی بیوی عاتکہ بنت زید بن عمرو بن نفیل جو ان سے پہلے عبداللہ بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما کی زوجیت میں تھیں اوران کی شہادت کے بعد زبیر بن عوام سے نکاح کرلیا تھا، انھوں نے زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت پر مرثیہ کہا تھا، اسی طرح بھی اسی قول کی تائید ہوتی ہے۔ وہ مرثیہ یہ تھا: غَدَرَ ابْنُ جُرْمُوْزٍ بِفَارِسِ بُہْمَۃٍ یَوْمَ اللِّقَائِ وَ کَانَ غَیْرُ مُعَرِّدٍ ’’ابن جرموز نے بہادر شہسوار کے ساتھ غداری کی جو میدان جنگ سے راہ فرار اختیار کرنے والا نہ تھا۔‘‘ یَا عَمْرُوْ لَوْ نَبَّہْتَہُ لَوَجَدتَّہُ لَا طَائِشًا رَعَشَ البَنَانِ وَ لاَ الْیَدِ ’’اے عمرو اگر تو اعلان کرکے یہ کام کرتا تو انھیں خوف زدہ نہ پاتا اور نہ ہی ان کی انگلیوں اور ہاتھوں میں رعشہ طاری ہوتا۔‘‘ ثَکِلَتْکَ أُمُّکَ إِنْ ظَفَرْتَ بِمِثْلِہِ فِیْمَا مَضَی مِمَّا تَرُوْحُ وَ تَغْتَدِي ’’تیری ماں تجھے گم پائے تم ان کے مثل ماضی میں کہیں نہیں پاؤ گے۔‘‘ کَمْ غمْرَۃٍ قَدْ خَاضَہَا لَم یَثْنِہِ عَنْہَا طِرَادُکَ یَا ابْنَ فَقْعِ الفَدْفَدِ ’’اے ذلیل کتنے معرکے انھوں نے سر کیے تیرے جیسے حملے ان کو ان معرکوں سے موڑ نہ سکے۔‘‘ وَاللّٰہِ رَبِّکَ اِنْ قَتَلْتَ لَمُسْلِمًا حَلَّتْ عَلَیْکَ عُقُوْبَۃُ الْمُتَعَمِّد[1] ’’تیرے رب کی قسم تو نے یقینا ایک مسلمان کو قتل کیا ہے تیرے اوپر قتل عمد کی سزا ثابت ہوچکی ہے اسے تمھیں بھگتنا ہی ہوگا۔‘‘ عمرو بن جرموز نے جب آپ کو شہید کردیا تو آپ کے سر کو دھڑ سے الگ کرلیا اور اس خوش فہمی میں اسے علی رضی اللہ عنہ کے پاس لے کر گیا کہ اس سے ان کے نزدیک میری پذیرائی ہوگی۔ چنانچہ اس نے آپ سے ملنے کی اجازت مانگی، آپ نے کہا: صفیہ کے بیٹے کے قاتل کو جہنم کا مژدہ سنا دو، پھر فرمایا: میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ((لِکُلّ ِنِبِيٍّ حَوَارِيٌّ وَ حَوارِيُّ الزُّبَیْرُ۔)) [2] ’’ہر نبی کا حواری ہوتا ہے میرے حواری زبیر ہیں۔‘‘ جب سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے زبیر رضی اللہ عنہ کی تلوار دیکھی تو فرمایا: اس تلوار نے نامعلوم کتنی مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخ انور سے مشکلات کو ہٹایا ہے۔[3] ایک روایت میں ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے ابن جرموز کو اپنے پاس آنے سے روک دیا اور کہا صفیہ کے بیٹے کے قاتل کو جہنم کا مژدہ سنا دو۔[4]
Flag Counter