Maktaba Wahhabi

489 - 1201
کرلے۔[1] جمہور فقہاء کا یہی قول ہے۔[2] اور سب کی دلیل یہ ہے کہ پہلی عورت کا نکاح صحیح ہوا ہے جب کہ دوسری کا نکاح باطل تھا، اس لیے اس کا شمار نہ کیا گیا۔[3] 10۔ بیوی کے دبر (پچھلی شرم گاہ) میں وطی کرنے کی ممانعت: ابن قدامہ، علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ آپ کے نزدیک عورت کے دبر میں وطی کرنا حرام ہے۔[4] چنانچہ ابوالمعتمر کا بیان ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے منبر سے اعلان کیا: مجھ سے کچھ پوچھو؟ ایک آدمی نے سوال کیا کہ کیا بیوی کے دبر میں وطی کرنا جائز ہے؟ آپ نے فرمایا: تو نے بہت خسیس اور کمینی حرکت کی، اللہ تجھے پست کرے، کیا تو نے اللہ کا کلام نہیں دیکھا: إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُم بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِّنَ الْعَالَمِينَ ﴿٢٨﴾ (العنکبوت:28) ’’بے شک تم یقینا اس بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو جو تم سے پہلے جہانوں میں سے کسی نے نہیں کی۔‘‘[5] صحابہ میں سے عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمرو، ابوہریرہ رضی اللہ عنہم اور تابعین میں سے سعید بن المسیب، ابوبکر بن عبدالرحمن، مجاہد اور عکرمہ اور ائمہ میں سے ابوحنیفہ، شافعی، احمد، مالکیہ اور ظاہریہ کا یہی مسلک ہے۔ نیز حرمت کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے کہ : ((مَلْعُوْنٌ مَنْ أَتٰی امْرَاتَہٗ فِیْ دُبُرِہَا۔))[6] ’’جو شخص اپنی عورت کے دبر میں آئے (وطی کرے) وہ ملعون ہے۔‘‘ حدیث سے وجہ استدلال یہ ہے کہ کسی چیز سے ممانعت اور اس کی خلاف ورزی پر لعنت کی توبیخ اس چیز کی حرمت کی دلیل ہے۔[7] 11۔ حاملہ عورت کی عدت، جس کا شوہر وفات پاگیا ہو: ابن رشد وغیرہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ آپ کے نزدیک ایسی حاملہ عورت جس کا شوہر وفات پاگیا ہو اور وفات کی عدت گزرنے سے پہلے اس کی ولادت ہوجائے تو وہ حمل اور وفات کی دونوں عدتوں میں سے لمبی مدت والی عدت گزارے گی، یعنی اگر عدت وفات گزرنے سے پہلے ولادت نہیں ہوئی تو وضع حمل کی عدت گزارے گی اور اگر عدت وفات گزرنے سے پہلے ولادت ہوگئی تو شوہر کے وفات کی عدت یعنی چار مہینہ دس دن گزارے گی۔[8]
Flag Counter