Maktaba Wahhabi

490 - 1201
عبدالرحمن بن معقل کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں علی رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، ایک آدمی نے آپ سے ایسی عورت کے بارے میں فتویٰ پوچھا جو حمل سے ہو اور اس کا شوہر وفات پاجائے؟ تو آپ نے فرمایا: دونوں عدتوں میں جو لمبی ہو اس کا انتظار کرے۔[1] اور شعبی سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے ہر حاملہ کی عدت آخرالاجلین ہے۔[2] درا صل علی رضی اللہ عنہ نے یہ مسلک اختیار کرکے دو آیات میں تطبیق پیدا کی ہے۔ ایک اللہ کا ارشاد ہے: وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ (الطلاق:4) ’’اور جو حمل والی ہیں ان کی عدت یہ ہے کہ وہ اپنا حمل وضع کر دیں۔‘‘ اور دوسری جگہ ارشاد ہے: وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ۖ (البقرۃ:234) ’’اور جو لوگ تم میں سے فوت کیے جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں وہ (بیویاں) اپنے آپ کو چار مہینہ اور دس راتیں انتظار میں رکھیں۔‘‘ دونوں آیات میں عموم و خصوص کی نسبت ہے، اس لیے کسی ایک پر عمل کو ترجیح دینا اور دوسرے کو چھوڑنا درست نہیں ہے، لہٰذا ظنی پہلو کو چھوڑ کر یقینی پہلو کو راجح قرار دینے اور تعارض سے بچنے کے لیے دونوں پر عمل کیا جائے گا۔[3] لیکن راجح اور صحیح بات یہ ہے کہ مذکورہ دونوں حالتوں میں حاملہ کی عدت وضعِ حمل ہے۔ عبداللہ بن عتبہ سے روایت ہے کہ سبیعہ بنت حارث نے انھیں خبر دی کہ وہ سعد بن خولہ کی زوجیت میں تھیں۔ وہ بدری صحابہ میں سے تھے، حجۃ الوداع کے موقع پر ان کی وفات ہوگئی اور یہ حمل سے تھیں، ان کی وفات کے کچھ ہی دیر بعد انھیں بچہ پیدا ہوا، پھر جب ایام نفاس سے فارغ ہوئیں تو پیغام نکاح دینے والوں کے لیے بناؤ سنگار کیا، ان کے پاس ابوالسنابل بن بعکک آئے اور کہا: کیا بات ہے میں دیکھ رہا ہوں کہ تم بناؤ سنگار کیے ہو؟ شاید تم نکاح کی خواہش رکھتی ہو؟ لیکن جان لو کہ تم چار مہینہ دس دن گزرنے سے پہلے نکاح نہیں کرسکتی ہو۔ سبیعہ کہتی ہیں: ان کی یہ بات سن کر میں نے شام کو اپنے کپڑوں کو اکٹھا کیا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر اس مسئلہ کے بارے میں فتویٰ پوچھا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فتویٰ دیا کہ ’’جب میرے بچہ پیدا ہوگیا تب میں حلال ہوگئی اور آپ نے مجھ سے کہا کہ اگر تم ضرورت محسوس کرتی ہو تو نکاح کرلو۔‘‘[4] جمہور علماء کا یہی مسلک ہے اور بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس حدیث کو سننے کے بعداس مسئلہ پر اجماع ہوگیا۔[5]
Flag Counter