اور ان اوقات میں مدینہ پر دشمنوں کے حملہ کا زیادہ خوف ہوا کرتا تھا اور جہاں تک غزوۂ تبوک کی بات ہے تو اس موقع پر حجاز کے باشندگانِ عرب اسلام لاچکے تھے، مکہ فتح ہوچکا تھا، اور اسلام غلبہ و عزت کے دور سے گزر رہا تھا، اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ کا حکم دیا تھا، اور علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کسی مجاہد کونہیں چھوڑا جب کہ دیگر غزوات میں آپ اپنے نائبین کے پاس مجاہدین کا ایک لشکر چھوڑ دیتے تھے، لیکن اب کی بار سب کو اپنے ساتھ لیتے گئے۔[1] خلافت کے لیے عدم نامزدگی کی حکمت و مصلحت: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد کے لیے کسی امام یا خلیفہ کو نامزد نہیں کیا، اس میں کیا حکمت و مصلحت پوشیدہ تھی؟؟ درحقیقت اس کا جواب اس وقت زیادہ نکھر کر سامنے آئے گا جب ہم اسلامی احکام و تعلیمات کو انسانیت کے لیے ایک دین ربانی کی حیثیت سے دیکھیں گے، چنانچہ آپ غور کیجئے کہ اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد کے لیے کسی کو اپنا خلیفہ نامزد کردیتے تو اس کا مطلب یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹے دعوے داروں کو گویا سند جواز عطا کردی تھی کہ وہ جیسا چاہیں دعویٰ کریں، جب کہ بلا کسی شرعی دلیل کے بعض دعوے داروں نے یہ دعویٰ کر ہی ڈالا کہ امت مسلمہ کی قیادت انھی کے خاندان کا حق ہے۔مزید برآں خاندانی و موروثی حکومت ہی اسلامی حکومت کی جگہ لے لیتی، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ اپنی مرضی سے کوئی بات ہرگز نہ بولتے تھے اور بموجب آیت کریمہ : إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ﴿٤﴾ (النجم:4) ’’ وہ تو صرف وحی ہے جو نازل کی جاتی ہے ۔‘‘ آپ کی بات وحی ہوتی تھی جسے آپ کی طرف اتارا جاتا تھا، آپ نے چاہا کہ اس معاملہ کو مطلق طور سے مسلمانوں کے حوالہ کردیں، وہ جسے اپنے لیے سب سے صالح و مناسب اور سب سے بہتر سمجھیں اسے اپنا امیر بنالیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کی طرف چند تلمیحات و اشارات کیے اور آپ کو اختیار تھا کہ صراحت سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نام کا اعلان کردیں، لیکن آپ نے اسی مقصد کے پیش نظر ایسا نہ کیا، پس نہ تلمیح نے نامزدگی کے لیے شرعی سند جواز عطا کی اور نہ تصریح نے۔ یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اگر آپ نے کسی کے حق میں خلافت کی وصیت کی ہوتی توبالکل ابتدائی مرحلہ میں، جب کہ سقیفۂ بنوساعدہ میں انتخاب خلیفہ کی بات چل رہی تھی، وہاں کوئی اختلاف ہی رونما نہ ہوتا، نہ ابوبکر، عمر رضی اللہ عنہما کو خلیفہ بنانے کے لیے لوگوں سے مشورہ لیتے اور نہ عمر رضی اللہ عنہ اپنے بعد چھ مہاجرین ارکان شوریٰ کے ہاتھ میں اس معاملہ کو سونپتے، نیزاگر یہ مسئلہ خاندان اور وراثت پر مبنی ہوتا تو بنو ہاشم سب سے زیادہ اس کے مستحق ہوتے۔[2] یہ دین پوری نوع انسانیت کے لیے ہے، یہ دین کسی بھی حالت میں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اس کا نظام حکمرانی ایک مخصوص خاندان یا گھرانہ میں محصور رہے اور وہ متاع زندگی کی طرح نسلاً بعد نسلٍ وراثت میں منتقل ہوتا رہے اور چونکہ دور نبوت کے ما بعد کے ادوار میں امویوں اور عباسیوں نے یہی کچھ کیا اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے شرعی نظام حکمرانی کی خلاف ورزی کی اور جو نظام شریعت کے خلاف ہو وہ بہرحال دین میں ایک نووارد |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |