Maktaba Wahhabi

1018 - 1201
ساتھی نے سنبھالی جو غار میں آپ کے ساتھ رہا اور مدینہ تک آپ کے ساتھ سفر کیا یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ ۔ جب ہارون علیہ السلام کی طرح علی رضی اللہ عنہ نبی نہ ہوئے اور نہ ہارون، موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد بنو اسرائیل پر آپ کے خلیفہ بنے تو یہیں سے یہ معنی متعین کرنا صحیح ہوگیا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایسے ہی تھے جیسا کہ ہارون علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام کے لیے، یعنی یہ مثلیت صرف قرابت میں تھی نہ کہ خلافت و نبوت میں۔ اس مقام پر ایک دوسری بات بھی قابل غور ہے، وہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے یہ بات اس وقت فرمائی تھی جب آپ غزوۂ تبوک کے لیے روانہ ہو رہے تھے اور مدینہ پر ان کو اپنا نائب مقرر کر رہے تھے، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ تبوک سے پہلے اور بعد دونوں اوقات میں سفر پر روانہ ہونے سے قبل علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ دیگر لوگوں کو بھی مدینہ پر اپنا نائب مقرر کیا، تو جس طرح یہ نیابتیں کسی کے لیے موجب ولایت و خلافت ثابت نہ ہوئیں اسی طرح علی رضی اللہ عنہ کی نیابت بھی خلافت کے باب میں دیگر لوگوں پر آپ کی کسی افضلیت و تقدم کو واجب نہیں ٹھہراتی۔[1] حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’اس باب کی حدیث سے دیگر صحابہ کے بالمقابل علی رضی اللہ عنہ کے استحقاق خلافت پر استدلال کیا گیا ہے بایں طور کہ ہارون ، موسیٰ رحمۃ اللہ علیہم کے خلیفہ تھے۔ لیکن اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ہارون ، موسیٰ رحمۃ اللہ علیہم کے خلیفہ ضرور تھے، لیکن یہ خلافت ان کی زندگی ہی میں تھی نہ کہ ان کی وفات کے بعد۔ کیونکہ باتفاق مؤرخین ہارون علیہ السلام کی وفات موسیٰ علیہ السلام سے پہلے ہوئی۔ خطابی نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔‘‘[2] امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ روافض کے اس حدیث سے استدلال کی تردید میں فرماتے ہیں کہ جب کوئی کہتا ہے کہ یہ اس کے مقام پر ہے، یا یہ اس کی طرح ہے، تو اس میں ایک چیز کو دوسری چیز سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ پس سیاق کو دیکھ کر اس کی مثلیت کا تعین کیا جائے گا، ایسی تشبیہ سے مطلقاً ہر اعتبار سے مساوات لازم نہیں آتی، چنانچہ علی رضی اللہ عنہ کو ہارون علیہ السلام سے مشابہت دینے کی یہاں یہی نوعیت ہے۔ علی رضی اللہ عنہ کی اس نیابت کو خصائص علی میں شمار نہیں کیا جاسکتا بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر نیابتوں تک کے برابر نہیں، چہ جائیکہ اس سے افضل ہو، پھر اس سے استدلال کیوں کر؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سارے غزوات میں ایسے لوگوں کو اپنی نیابت سونپی جن سے علی رضی اللہ عنہ کہیں زیادہ افضل ہیں، لیکن وہ نیابتیں کہیں بھی علی رضی اللہ عنہ پر ان کے تقدم و برتری کو واجب نہیں ٹھہراتیں، جب کہ علی رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ ہوں پس نیابت علی رضی اللہ عنہ ان کی افضلیت کے لیے موجب کیونکر ہوسکتی ہے؟ کہ اس سے استخلاف علی پر استدلال کیا جائے۔ مدینہ پر کئی لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے آپ کے نائب بنائے گئے، یہ سب لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے علی رضی اللہ عنہ کی طرح ویسے ہی نائب تھے جیسا کہ ہارون علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام کے لیے تھے، بلکہ سچ پوچھئے تو غزوۂ تبوک سے پہلے کی نیابتیں زیادہ فضیلت اور اہمیت کی حامل تھیں، کیونکہ ان مواقع پر نیابتوں کی زیادہ ضرورت تھی،
Flag Counter