Maktaba Wahhabi

186 - 1201
’’اور تو پیٹھ دکھا کر اس طرح بھاگا جیسے نرشترمرغ بھاگتا ہے اور اپنے نشانہ سے مڑتا نہیں۔‘‘ وَلَمْ تَلْوِ ظَہْرَکَ مُسْتَانِساً کَأَنَّ قَفَاکَ قَفَا فُرْعُلِ ’’تو شوق سے اس طرح بھاگتا رہا کبھی پیٹھ نہیں پھیری گویا تیری گدی بجّو کی گدی ہے جو مڑتی نہیں۔‘‘ بہرحال جب عمرو بن عبدود قتل کردیا گیا تو مشرکوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہلوایا کہ ہم عمرو کی لاش کو دس ہزار کے بدلے خریدنا چاہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’انہیں اس کی لاش دے دو، وہ لاش خبیث ہے اور اس کا معاوضہ بھی خبیث وناپاک ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کچھ بھی نہیں لیا، حالانکہ اس وقت مسلمان سخت ترین معاشی تنگی سے گزر رہے تھے، لیکن چونکہ حلال حلال ہے اور حرام حرام ہے، اس لیے اسے ہاتھ نہ لگایا، یہ ہے حلال اور حرام کی تمیز کا اسلامی معیار، پس تقویٰ سے لبریز اس زندگی کا آج کے ان مسلمانوں کی زندگی سے کیا موازنہ کیا جاسکتا ہے جو سود خوری اور دیگر حرام خوری کے لیے مختلف حیلہ اور بہانہ ایجاد کرتے رہتے ہیں؟ [1] سیّدنا علی رضی اللہ عنہ غزوۂ بنو قریظہ میں: غزوۂ بنو قریظہ میں علی رضی اللہ عنہ بطور مقدمۃ الجیش اس وقت تک علمبردار رسول رہے جب تک کہ بنو قریظہ کے بارے میں سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے اپنا فیصلہ نہیں سنایا۔ ابن ہشام اس کی تفصیل یوں بیان کرتے ہیں کہ مسلمان بنو قریظہ کا محاصرہ کیے ہوئے تھے، علی رضی اللہ عنہ نے پکار کر کہا: اے ایمان کے لشکر! علی اور زبیر بن عوام آگے بڑھے اور علی نے فرمایا: اللہ کی قسم ! میں وہ مزہ چکھنا چاہتا ہوں جو حمزہ رضی اللہ عنہ نے چکھا تھا، یا پھر اس قلعہ کو فتح کر کے رہوں گا۔ اب بنو قریظہ نے کہا : اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! ہم سعد بن معاذ کے حکم پر اترتے ہیں۔ [2] اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس متقی اور صاف دل انسان جسے اعلائے کلمۃ اللہ کے راستہ میں بہادری دکھانے اور قربان ہوجانے کی توفیق دی تھی، ( یعنی علی رضی اللہ عنہ کی) آواز سے دشمنان اسلام کے دلوں میں رعب اور دہشت طاری کردی، اسی طرح اپنے گروہ سے علی رضی اللہ عنہ کا خطاب بھی قابل غور ہے کہ آپ نے اسے ’’اے ایمان کے لشکر‘‘ جیسے محبوب ترین نام سے پکارا، جس طرح اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مخاطب کیا کرتا ہے، درحقیقت یہ ایمانی نداء تھی جس میں عقیدہ کی صداقت، عمل کی درستگی اور جہاد فی سبیل اللہ کی تصویر جھلک رہی تھی۔ [3] جب بنو قریظہ کے بارے میں سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ ہوا کہ ان کے جنگجو قتل کر دیے جائیں، عورتیں اور بچے قید کرلیے جائیں، اور ان کے مال وجائداد کو تقسیم کردیا جائے [4] تو جنگجوؤں کو قتل کرنے میں جنابِ علی اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنہما پیش پیش تھے۔ [5]
Flag Counter