مزید صراحت کے ساتھ فرما دیا کہ قاتل اور مقتول کا ولی، دونوں آپس میں بھائی ہیں فرمایا: ((فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْئٌ۔))پس یہ درست ہے کہ قاتل ، نص قرآنی کی روشنی میں مومن ہے اور اس پر ایمانی اخوت کا حکم لگایا جائے گا۔ اگر اسے کافر مان لیا جائے تو مومن کے ساتھ اس کی اخوت کا کوئی معنی نہیں رہ جاتا ہے۔ ‘‘[1] امامت کا وجوب: اس مسئلہ میں خوارج کا موقف ذکر کرنے سے پہلے مناسب سمجھتا ہوں کہ شرعی نقطۂ نظر واضح کردیا جائے۔ چنانچہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں کے لیے ایک امارت کا وجود ضروری ہے وہ نیک ہو یا فاجر۔ آپ سے پوچھا گیا کہ نیک اوربھلی امارت تو ہم جانتے ہیں یہ فاجر امارت کیاہے؟ آپ نے فرمایا: جس میں انسانوں کا راہ گزر مامون و محفوظ ہو، حدود شرعیہ کا نفاذ ہو، دشمن سے جہاد کیا جاتا ہو اور اموال غنیمت تقسیم کرتی ہو،[2] اسی لیے پوری امت مسلمہ پر تعیین امام کا حکم واجب ہے، اگر بلا کسی امام کی ماتحتی کے امت زندگی گزارتی ہے تو سب کے سب گناہ گار ہوں گے، اس لیے اللہ نے فرمایا: أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ (النسائ: 59) ’’رسول کا حکم مانو اور ان کا بھی جو تم میں سے حکم دینے والے ہیں۔‘‘ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’بظاہر اس آیت کا حکم ہر قسم کے ’’اولو الامر‘‘ کے لیے عام ہے خواہ وہ امراء (حکام المسلمین) ہوں یا علمائ۔ واللہ اعلم۔‘‘[3] میرے خیال میں یہی بات راجح بھی ہے، اور آیت کریمہ سے وجہ استدلال یوں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر ان کے اولوالامر یعنی ائمہ (حکام المسلمین) کی اطاعت واجب ٹھہرائی ہے، پس اطاعت کا وجوبی حکم اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا کوئی ولی امر (امام) ضرور ہونا چاہیے، اس لیے جس کا کوئی وجود نہ ہو اس کی واجبی اطاعت کا اللہ تعالیٰ حکم نہیں دے سکتا اور نہ ہی جس کا وجود مندوب و مستحب ہو اس کی اطاعت دوسروں پر فرض کرسکتاہے، لہٰذا اطاعت کا وجوبی حکم، امام کے وجوبی وجود کا متقاضی ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمانوں کو اپنا ایک امام بنا لینا ضروری ہے۔[4] اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بھی ہے: ((مَنْ مَّاتَ وَ لَیْسَ فِیْ عُنُقِہٖ بَیْعَۃٌ مَاتَ مِیْتَۃً جَاہِلِیَّۃً))[5] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |