Maktaba Wahhabi

385 - 1201
دیا کہ امیر المومنین! میں نے اپنی اس بھتیجی کو زیورات دیے ہیں، اگر میں نہ دیتا تو بھلا یہ کہاں پاسکتی تھی، علی رضی اللہ عنہ یہ سن کر خاموش ہوگئے۔[1] آزادیاں: آزادی کا تصور اسلام کے ان اساسی اصول و مبادی میں سے ایک ہے جس پر خلفائے راشدین کی حکومتیں قائم تھیں، یہ آزادی کا تصور جب تک اسلامی شریعت کے دائرہ میں ہے، اور اسلامی مزاج سے متفق ہے تب تک تمام انسانوں کی عام آزادی کا کفیل و ضامن ہے۔ آزادی کا اسلامی تصور تمام انسانوں کے لیے آزادی کا پیغام ہے، یہ ایک وسیع و عریض دعوت ہے۔ شاید مشکل ہی تاریخ میں کوئی دعوت اس تصور کی حامل ہو، آزادی کے باب میں اسلام کی سب سے پہلی دعوت متعدد قرآنی آیات میں اللہ کی وحدانیت کے اقرار کی دعوت تھی، پوری کائنات اور تمام تر مخلوقات سے کٹ کر صرف اللہ کے لیے عبادت کی دعوت تھی، اس دعوت میں تمام انسانوں کے لیے آزادی و استقلال کے تمام معانی پوشیدہ ہیں۔ آزادی کے اسلامی تصور میں آزادی کا ہر معنی و مدلول اور مفہوم شامل ہے، چنانچہ کبھی یہ آزادی ایجابی عمل کی شکل میں ہوتی ہے، جیسے بھلائی کا حکم دینا، اور برائی سے روکنا اور کبھی سلبی عمل کی شکل میں ہوتی ہے جیسے جبر و زبردستی سے کسی کو مسلمان بنانے کی ممانعت اور بعض اوقات رحمت، عدل، باہمی مشورہ، اور مشاورت کے معانی سے مخلوط ہوتی ہے اس لیے کہ یہ تمام تر اسلامی اساسیات اس وقت تک درست اور پائیدار نہیں ہوسکتیں اور نہ ہی ان کی خوبیاں نمایاں ہوسکتی ہیں جب تک کہ ان میں آزادی کامفہوم شامل نہ ہو۔ خلفائے راشدین کے دور حکومت میں آزادی کے اسلامی تصور نے اسلام کی نشر و اشاعت، اسلامی فتوحات کی وسعت اور اسلامی حکومت کا دائرہ اقتدار وسیع کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا ، اس لیے کہ اسلام نے انسان کو مکرم مانا اور سب سے وسیع سطح پر انسانی آزادی کا ضامن ہوا۔ اور ایک وجہ یہ بھی تھی کہ روم و فارس میں اس وقت کا سیاسی نظام نہایت ظالمانہ، جابرانہ اور آمرانہ تھا، جس سے ان کی رعایا تنگ آچکی تھی، خاص طور سے سیاسی مخالفین اور مذہبی اقلیتیں انتہا درجہ کی رسوائی، اور مظالم کو برداشت کر رہی تھیں، جبکہ اسلام میں عہد نبوی اور خلافت راشدہ میں وہ تمام آزادیاں جنھیں آج ہم آزادی تصور کرتے ہیں مکمل طور سے معلوم اور محفوظ تھیں۔[2] سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے متعدد اقوال و مواقف آزادی کے اسلامی تصور کی تائید اور مسلم معاشرہ میں ان کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔چنانچہ آپ نے فرمایا: ’’بندوں پر ظلم کرنا، آخرت کے لیے کس قدر برا سامان سفر ہے۔‘‘ [3] آپ کا یہ مختصر مگر معنی خیز جملہ بتاتا ہے کہ کسی بھی انسان پر کسی طرح کا ظلم اسلام میں جائز نہیں ہے اور یہ کہ ایسے بہت سے ظالم لوگ خلافت راشدہ کے دور میں کیفر کردار تک پہنچ چکے ہیں، اور قیامت کے دن عذاب الٰہی
Flag Counter