سے دوچار ہوں گے۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ظن پر اعتماد کرکے فیصلہ دے دینا عدل نہیں ہے۔[1] آپ کے اس قول میں واضح دلیل ہے کہ محض شکوک و شبہات کی بنا پر کسی کو گرفتار کرنا اور اس کے خلاف فرد جرم عائد کردینا جائز نہیں ہے، بلکہ ایسا اقدام مستند دلائل کے بعد ہی کیا جائے کہ جس میں کسی شک و شبہ کی قطعاً گنجائش نہ ہو، مستند دلائل میں سب سے بہتر و معتبر وہ دلائل ہیں جو شریعت کے مقرر کردہ ہیں۔[2] چنانچہ عصر حاضر میں جدید فوجداری نظام کا یہ قانون کہ متہم شخص بری ہے جب تک فرد جرم ثابت نہ ہو جائے، یہ ایسا قانون ہے جسے اسلام نے آج سے صدیوں پہلے پیش کردیا ہے۔ [3] سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں آزادی اپنی تمام تر رعنائیوں اور خوش نما اشکال میں نمایاں رہی۔ متعدد فتنوں کا ظہور، دشمنوں کی ناپاک سازشیں اور داخلی و خارجی لڑائیاں غرض یہ کہ ایسے کئی ناگفتہ بہ استثنائی حالات پیش آئے جو اس بات کے متقاضی ہوئے کہ بعض افراد کی آزادیاں چھین لی جائیں، انھیں نظر بند کردیا جائے یاموجودہ دور کی اصطلاح میں ایمرجنسی نافذ کردی جائے، لیکن آپ نے کسی کی آزادی نہیں چھینی، خواہ وہ آپ کا موافق رہا ہو یا مخالف۔ اسی طرح کسی کو مجبور نہیں کیا کہ اگر کسی کو رہنا ہے تو آپ ہی کے زیراقتدار رہے، یا پھر جلاوطن ہوجائے، حتی کہ جب آپ اپنے مخالفین سے جنگ کے لیے نکلے تو کسی کو اپنے ساتھ چلنے پر مجبور نہیں کیا اور اگر کسی نے معاویہ رضی اللہ عنہ کا ساتھ دینا چاہا، تو اسے ساتھ دینے سے نہیں روکا۔[4] اسی طرح عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد اور عبیدۃ السلمانی اور ربیع بن خیثم نے جب شام والوں سے جنگ لڑنے سے انکار کردیا تو آپ نے اپنے ساتھ چلنے کے لیے کسی پر دباؤ نہیں ڈالا اور نہ ان کی آزادیاں چھینیں، بلکہ ان کی خواہش کو ترجیح دیتے ہوئے بعض ملکی سرحدوں پر جانے کی انھیں اجازت دے دی۔[5] عہد نامۂ تحکیم کو مان لینے کی وجہ سے معرکۂ صفین کے بعد جب خوارج نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلافت بغاوت کی تو آپ نے ان میں کسی کو مجبور نہیں کیا کہ وہ میری ہی حکومت کے تابع رہیں یا ملک سے نکل جائیں، بلکہ اس کے برعکس اپنے صوبائی حکام اور دیگر حکومتی کارندوں کو حکم دیتے تھے کہ ان سے چھیڑچھاڑ نہ کریں، جب تک وہ زمین میں فساد نہ کرنے لگیں اور لوگوں کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ نہ بنائیں۔[6] آپ نے ان سے اعلان کیا کہ ہمارے پاس تمھارے تین حقوق ہیں: اس مسجد میں تمھیں نماز پڑھنے سے ہم نہیں روکیں گے، جب تک تمھارا تعاون ہمارے ساتھ ہے، مال غنیمت میں حصہ دیں گے اور جب تم لوگ ہم سے قتال نہ کروگے تو ہم تم سے قتال نہ کریں گے۔[7] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |