Maktaba Wahhabi

778 - 1201
ایسا پُرخطر تھا جس کے نتیجہ میں بہت سے مسلمانوں کا خون بہ چکے تھے۔ بیشترمؤرخین، ادباء اور محققین نے دشمنان صحابہ کی ان من گھڑت روایات کو تاریخی حقائق کی حیثیت سے قبول کیا ہے، ان کے صحیح اور غلط ہونے کی کوئی تحقیق نہیں کی، گویا کہ وہ ایسا سچ ہے جس میں شک کی ادنیٰ بھی گنجائش نہیں ہے، بہرحال یہ ممکن ہے کہ ان واقعات کے جذباتی اسلوب بیان اور مکر و فریب کی دلچسپ منظر کشی سے متاثر ہو کر لوگوں نے ان روایات کا اہتمام کیا ہو اور مؤرخین نے انھیں تحریر کیا ہو۔ واضح رہے کہ ہماری اس گفتگو کا دار و مدار ’’تحکیم‘‘ کے ماقبل و ما بعد کی تفصیلات ہیں نہ کہ اصل تحکیم، اس لیے کہ وہ ایک مسلمہ حقیقت ہے، جس میں قطعاً کوئی شک نہیں۔[1] چنانچہ میں نے اصل موضوع میں داخل ہونے کے لیے دو جلیل القدر صحابہ یعنی ابوموسیٰ اشعری اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کی سیرت سے اس بحث کا آغاز کیا ہے۔ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی سیرت آپ رضی اللہ عنہ کا نام عبداللہ بن قیس بن حضار بن حرب ہے، آپ دین کے امام، فقیہ اورحافظ قرآن تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پسند صحابی، آپ کی کنیت ابوموسیٰ الاشعری تمیمی ہے۔[2] آپ مکہ میں اسلام لانے والے اوّلین صحابہ میں سے ہیں، ابن سعد رحمۃ اللہ علیہ آپ کے اسلام کے بارے میں لکھتے ہیں: آپ مکہ آئے اور سعیدبن عاص کے حلیف رہے، اولین صحابہ میں سے ہیں، حبشہ کی طرف آپ نے ہجرت کی۔[3] بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ اسلام لانے کے بعد اپنی قوم میں دعوت وتبلیغ کے لیے واپس چلے گئے، حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کے اسلام کے بارے میں وارد ہونے والی تمام روایات کو جمع کیاہے اور لکھا ہے کہ ان میں ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کا تذکرہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ اس لیے کہ صحیح بخاری کی روایت میں موجود ہے کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اپنے ساتھ ایک جماعت لے کر مدینہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کی خاطر اپنے ملک سے نکلے، لیکن کشتی نے انھیں حبشہ کی سرزمین پہنچا دیا، پھر آپ وہاں سے جعفر رضی اللہ عنہ کے ساتھ خیبر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے۔[4] بہرحال ان تمام روایات میں جمع کی صورت بایں طور سے ممکن ہے کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے پہلی ہجرت مکہ کے لیے کی اور اسلام لائے، وہاں سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حبشہ کے مہاجرین کے ساتھ انھیں بھی روانہ کردیا، پھر آپ وہاں سے اپنی قوم میں دعوت وتبلیغ کے لیے چلے گئے، اس لیے کہ آپ کا وطن مشرقی سمت میں حبشہ کے بالکل بالمقابل تھا اور وہاں رہتے ہوئے جب آپ کو یہ خبر مل گئی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ مدینہ میں بحفظ و اماں سکونت پذیر ہوچکے ہیں تو آپ نے اپنے ساتھ اسلام لانے والوں کو لے کر مدینہ کا رخ کیا، لیکن سخت ہوا کی
Flag Counter