Maktaba Wahhabi

883 - 1201
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث پیش کی کہ ((اَلْاَئِمَّۃُ مِنْ قُرَیْشٍ))[1] ’’ائمہ قریش میں سے ہوں گے۔‘‘ یہ سنتے ہی تمام لوگ اپنی اپنی جگہ خاموش ہوگئے اور اطاعت کے لیے سر جھکا دیا، جب کہ قبل ازیں یہی انصار صحابہ کہہ چکے تھے کہ ایک امیر ہم میں سے اور دوسرا تم میں سے ہو جائے اور گرمی و غصہ کا وہ دور بھی گزر چکا تھا کہ حباب بن منذر نے یہ کہتے ہوئے اپنی تلوار سونت لی تھی کہ: ’’اَنَا جُذَیْلُہَا الْمُحَکَّکُ وَ عُذَیْقُہَا الْمَرْجَبُ‘‘پھر سب نے ابوبکر رضی اللہ عنہ پر بیعت کی اور آپ کی امامت و خلافت کے لیے متفق و متحد ہوگئے اور اطاعت کے لیے جھک گئے۔[2] ٭ اور ان کی یہ دلیل کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض ریاستوں یا لشکر وغیرہ پر غیر قریش کو امیر مقرر کیا ہے تو اس میں بھی ان کے لیے کوئی حجت نہیں ہے، کیونکہ اس کا تعلق امامت عظمی سے نہیں ہے اور ہم اس قاعدہ کو تسلیم نہیں کرتے کہ جو بات فرع میں درست ہو اصل میں بھی درست ہو۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’قریش میں خلافت کی عدم تخصیص کے قائلین کی جو یہ دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ وغیرہ متعدد مواقع پر عبداللہ بن رواحہ، زید بن حارثہ اور اسامہ رضی اللہ عنہم کو امیر بنایا تھا، سو اس کا امامت عظمیٰ سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قریشی امام اپنی زندگی میں غیر قریشی کو اپنا نائب بنا سکتا ہے۔واللّٰہ اعلم۔‘‘[3] اہل سنت کے دلائل اہل سنت و جماعت امامت عظمیٰ کے لیے قرشی النسب ہونے کی شرط لگاتے ہیں اور ان کے دلائل اس طرح ہیں: 1: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّ ہٰذَا الْأَمْرَ فِیْ قُرَیْشٍ لَا یُعَادِیْہِمْ أَحَدٌ إِلَّا کَبَّہُ اللّٰہُ فِی النَّارِ عَلٰی وَجْہِہِ مَا أَقَامُوا الدِّیْنَ۔))[4] ’’یہ امر (خلافت) قریش میں رہے گا کوئی بھی اگر ان سے دشمنی کرے گا تو اللہ اسے رسوا کردے گا، لیکن اس وقت تک جب تک کہ وہ دین کو قائم رکھیں گے۔‘‘ ب: اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا یَزَالُ ہٰذَا الْأَمْرُ فِیْ قُرَیْشٍ مَا بَقِیَ مِنْہُمُ اثْنَانِ۔))[5]
Flag Counter