Maktaba Wahhabi

884 - 1201
’’یہ امر (خلافت) اس وقت تک قریش میں رہے گا جب تک ان میں دو شخص بھی باقی رہیں گے۔‘‘ ج: ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَلنَّاسُ تَبَعٌ لِقُرَیْشٍ۔))[1] ’’لوگ (امر خلافت میں) قریش کے تابع ہیں۔‘‘ د: اجماع سلف جو کہ ایک کے علاوہ کئی علما نے نقل کیا ہے۔ انھیں میں سے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ بھی ہیں، آپ حدیث نبوی اور ((اَلنَّاسُ تَبْعٌ لِقُرَیْشٍ)) کی شرح میں لکھتے ہیں کہ یہ اور اس طرح کی دیگر احادیث اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ منصب خلافت قریش کے لیے خاص ہے۔ ان کے علاوہ کسی اور کو وہ منصب نہیں دیا جاسکتا، صحیح احادیث کی روشنی میں صحابہ و تابعین اور ان کے بعد کے علماء کا اجماع ثابت ہے۔[2]انھی علماء میں قاضی عیاض بھی ہیں۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ ان کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’امام کے لیے قریش النسب ہونے کی شرط تمام علماء کا مذہب ہے، سقیفۂ بنی ساعدہ میں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے انصار کے خلاف اسی بات سے حجت پیش کی تھی اور کسی نے آپ پر اعتراض نہ کیا تھا۔‘‘ قاضی عیاض فرماتے ہیں: ’’اس مسئلہ کو علماء نے اجماعی مسائل میں شمار کیا ہے، اسلاف میں سے کسی سے قولاً و فعلاً اس کی مخالفت ثابت نہیں ہے، بلکہ بعد کے تمام ادوار میں بھی کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی ہے۔ نظام اور اس کے ہم خیال خوارج اور اہل بدعت کی باتوں کا کوئی اعتبار نہیں ہے جو کہ امامت کو غیر قریش میں ماننے کو جائز ٹھہراتے ہیں، اسی طرح ضرار بن عمرو کی اس بے عقلی کا بھی کوئی معنی نہیں جو کہتا ہے کہ نبطی وغیرہ جو قریشی ہیں انھیں قریشیوں پر مقدم کیا جاسکتا ہے، کیونکہ بوقت ضرورت اسے منصب سے ہٹانا آسان ہوتا ہے، حالانکہ اس کی یہ بات بالکل من گھڑت اور بے بنیاد ہے، مزید برآں اجماع امت کے خلاف ہے۔‘‘ واللہ اعلم۔ [3] اس اجماع کو نووی کے علاوہ ماوردی،[4] ایجی،[5] ابن خلدون[6] اور غزالی[7] نیز محدثین میں سے محمد رشید رضا نے نقل کیا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ امام کے لیے قریشی النسب ہونے کی شرط پر اجماع، نصوص شرعیہ اور فعل صحابہ سے ثابت ہے، اسے ثقہ محدثین نے روایت کیا ہے اور متکلمین و فقہائے اہل سنت نے اس سے استدلال کیا ہے، اور انصار نے قریشی امام کی اطاعت کے لیے اسی پر رضا مندی ظاہر کی اور پھر بعد کی صدیوں میں امت محمدیہ کا سواد اعظم اسے رضا مندی سے قبول کرتا رہا ہے۔[8]
Flag Counter