14۔موت کے وقت ادائیگی قرض کا شدید احساس: عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ جنگ جمل کے موقع پر آپ نے اپنے قرض سے متعلق وصیت کرتے ہوئے فرمایا: بیٹا! اگر قرض ادا کرنے سے تو عاجز ہو جائے تو میرے مالک اور مولیٰ سے اس سلسلہ میں مدد چاہنا۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! میں ان کی بات نہ سمجھ سکا، میں نے پوچھاکہ ابّا آپ کے مولیٰ کون ہیں؟ انھوں نے فرمایا کہ اللہ پاک! عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم! قرض ادا کرنے میں جو بھی دشواری سامنے آئی تو میں نے اسی طرح کی دعا کی اے زبیر کے مولا! ان کی طرف سے ان کا قرض ادا کرا دے اور ادائیگی کی صورت پیدا ہوجاتی تھی۔ چنانچہ جب زبیر رضی اللہ عنہ (اسی موقع پر) شہید ہوگئے تو انھوں نے ترکہ میں درہم و دینار نہیں چھوڑے بلکہ ان کا ترکہ کچھ تو اراضی کی صورت میں تھا اور اسی میں غابہ کی زمین بھی شامل تھی، گیارہ مکانات مدینہ میں تھے، دو مکان بصرہ میں تھے، ایک مکان کوفہ میں تھا اورایک مصر میں تھا۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ان پر جو اتنا سارا قرض ہوگیا تھا اس کی صورت یہ ہوئی تھی کہ جب ان کے پاس کوئی شخص اپنا مال لے کر امانت رکھنے آتا تو آپ اس سے کہتے کہ نہیں! البتہ اس صورت میں رکھ سکتا ہوں کہ یہ میرے ذمہ بطور قرض رہے، کیونکہ مجھے اس کے ضائع ہوجانے کا بھی خوف ہے۔ بہرحال عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ان زمینوں کو بیچ کر آپ کا قرض ادا کردیا، پھر جب قرض کی ادائیگی ہوچکی تو زبیر کی اولاد نے کہا کہ اب ہماری میراث تقسیم کردیجیے، لیکن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابھی تمھاری میراث اس وقت تک تقسیم نہیں کرسکتا جب تک چار سال تک ایام حج میں اعلان نہ کرلوں کہ جس شخص کا بھی زبیر پر قرض ہو وہ ہمارے پاس آئے اور اپنا قرض لے جائے۔ راوی نے بیان کیا کہ اب ہر سال ایام حج میں اس کا اعلان کرنا شروع کیا اور جب چار سال گزر گئے تو عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ان کی میراث تقسیم کی۔ راوی کا بیان ہے: زبیر کی چار بیویاں تھیں اور عبداللہ رضی اللہ عنہ نے (وصیت کے مطابق) ایک تہائی حصہ بچی ہوئی رقم میں سے نکال لیا تھا، پھر بھی ہر بیوی کے حصہ میں بارہ بارہ لاکھ کی رقم آئی اور کل جائداد زبیر رضی اللہ عنہ کی پانچ کروڑ دو لاکھ ہوئی۔ [1] امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا قول اس بات پر محمول ہے کہ زبیر کی وفات کے وقت ان کے پاس یہی کل مال تھا، تقسیم میراث سے پہلے چار سالوں کی مدت میں اس میں جو اضافہ ہوا اس کا شمار اس میں نہیں ہے۔[2] بہرحال آپ کے ترکہ میں بہت برکت ہوئی۔[3] اللہ تعالیٰ نے ان کی وفات کے بعد ان کی اراضی میں بہت برکت دی، قرض کی ادائیگی کے بعدبھی بہت کچھ بچ گیا۔ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |