Maktaba Wahhabi

880 - 1201
سے تعاون کیا جائے، غفلت اور بھول چوک کے وقت انھیں آگاہ کیا جائے، لغزش کریں توانھیں سنبھالا دیا جائے، ان کے لیے متحد رہا جائے، حاسدوں کو منہ توڑ جواب دیا جائے، ان کے لیے سب سے بڑی خیرخواہی یہ ہے کہ نہایت مناسب انداز میں، احسن طریقہ سے انھیں ظلم سے روکا جائے، ائمۃ المسلمین میں مجتہدین ائمہ دین بھی شامل ہیں، ان کے حق میں خیرخواہی یہ ہے کہ ان کے علوم اور فضائل و مناقب کو عام کیا جائے اور ان سے حسن ظن رکھا جائے۔‘‘[1] لیکن خوارج ہیں کہ انھوں نے عدل و انصاف پر مبنی اس اصول کی مخالفت کی، اور معمولی سے معمولی لغزش کی بنا پر ائمۃ المسلمین کے خلاف خروج اور بغاوت کو جائز قرار دیا، امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی انھوں نے یہی کچھ کیا، خون ریزی کی، راستوں کو پُر خطر کردیا، حقوق کو پامال کیا اور مسلمانوں کی قوت و شوکت توڑنے کی ایسی بھرپور کوشش کی کہ دشمنان اسلام ان پر پل پڑے، امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کرنے کا یہ سب سے نقصان دہ خمیازہ رہا۔ ایک دوسرے اصول میں بھی خوارج نے جمہور مسلمانوں کی مخالفت کی، وہ یہ کہ امام کے لیے قریشی النسب ہونا ضروری نہ سمجھا، اور کہنے لگے کہ اس باب میں قریش کو دوسروں پر کوئی فوقیت اور امتیاز حاصل نہیں ہے، بلکہ ہر وہ شخص جو اس منصب کا اہل ہو اسے یہ منصب دیا جاسکتا ہے، اس میں نسب کی کوئی شرط نہیں ہے۔[2] انھوں نے اپنے اس عقیدہ کی تائید میں چند دلائل پیش کیے ہیں جن کا یہاں بالاختصار تجزیہ کردینا ضروری ہے: دلائل: ٭ امامت کے لیے قریشی ہونے کی شرط غیر معقول ہے، کیونکہ عقلاً یہ بات ناممکن نہیں ہے کہ دوسرے خاندان اور نسب میں ان سے افضل حاکم و امام ملے۔ ٭ جب اللہ تعالیٰ نے نبوت جیسا اہم منصب کسی خاص قوم میں نہیں دیا، تو امامت کے لیے یہ تخصیص کیونکر درست ہے۔ ٭ قرآن میں اس تخصیص کی کوئی دلیل نہیں ہے، چنانچہ فرمان الٰہی ہے: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ ۚ (الحجرات: 13) ’’بے شک تم میں سب سے عزت والا اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے۔‘‘ ٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی أَعْجَمِيٍّ إِلَّا بِالتَّقْوٰی۔)) [3] ’’کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں، مگر تقویٰ کے ذریعہ سے۔‘‘ ٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
Flag Counter