Maktaba Wahhabi

323 - 1201
اس میں تمھیں کو فیصلہ کا حق حاصل ہے۔[1] 4۔ بیعت علی رضی اللہ عنہ سے متعلق چند معاصر تحریروں کی موشگافیاں اور ان کی تردید: مصری ادیب عقاد محمود، علی رضی اللہ عنہ کی انتخاب خلافت کے تذکرہ میں لکھتے ہیں: ’’… یہ خبر مختصر ہونے کے باوجود ہمارے سامنے ان تمام لوگوں کی ایک فہرست پیش کرتی ہے جو شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد خلافت کے اہل قرار دیے گئے تھے، غالباً ان میں خلافت کے سب سے بڑے دعوے دار طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما تھے، جنھوں نے بعد میں اس مسئلہ کو لے کر علی رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی تھی، یہ دونوں عثمان رضی اللہ عنہ کی زندگی ہی میں اپنے لیے میدان ہموار کر رہے تھے، ان کا یہ خیال تھا کہ قریش کے لوگ تقریباً اس بات پر متفق ہیں کہ خلافت کسی ہاشمی کے حق میں نہ جانے پائے، اور یہ بہت ممکن ہے کہ علی رضی اللہ عنہ جس طرح انتخاب عثمان کے وقت خلافت سے دور رکھے گئے اسی طرح ان کی وفات کے بعد بھی، انھیں دور رکھا جائے گا۔ جب کہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی کوشش تھی کہ خلافت زبیر یا طلحہ میں سے کسی کو ملے، اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو کم از کم عبداللہ بن زبیر کو ملے، اس لیے کہ طلحہ قبیلۂ تیم سے تھے، اور زبیر، عائشہ کی بہن اسماء کے شوہر یعنی عائشہ کے بہنوئی تھے، ظاہر ہے کہ ان میں سے کسی ایک کے حق میں سیدہ عائشہ کی تائید اس کی کامیابی کی قوی امید کی طرف اشارہ کرتی تھا۔‘‘[2] ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’بے شک علی رضی اللہ عنہ نے اپنے عم زاد بھائی کی وفات کے بعد انھیں چھوڑ کر دوسرے کو خلافت دیے جانے سے متعلق ظلم کو پسند نہیں کیا۔ آپ کا خیال تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میری قرابت، ایسی خصوصیت ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مجھے ہی خلافت کا حق دار اور اہل ثابت کرتی ہے، اس لیے کہ خلافت بھی نبوت کی ایک فرع ہے اور اسی شجرہ نبوت کا میں بھی ایک حصہ ہوں۔‘‘[3] دوسری جگہ لکھتے ہیں: ’’یہ بات سب جانتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ خود کو اپنے پیشرو خلفاء سے زیادہ خلافت کا مستحق سمجھتے تھے اور جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رفیق اعلیٰ سے جاملے اسی وقت سے اپنے حق کے دفاع میں لگے رہے۔‘‘[4] بہرحال یہ اور اس طرح کی پہاڑ جیسی تہمتیں، افتراپردازیاں اور کذب بیانیاں جن میں عقاد جیسے لوگوں نے غوطہ لگایا ہے، سب کی سب جھوٹی روایات پر مبنی ہیں۔ ایک دوسرے مولف خالد محمد خالد بھی اپنی کتاب ’’خلفاء الرسول‘‘ میں اسی ڈھرّے پر چلے ہیں، اور من گھڑت و بالکل جھوٹی باتوں کو علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیا ہے۔ انھیں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ’’ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما نے علی رضی اللہ عنہ سے خلافت غصب کرلیا تھا۔‘‘[5]
Flag Counter