7۔معاویہ رضی اللہ عنہ کی تاویل کی تردید: سیّدنا عمار رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جنگ کے جواز کے لیے معاویہ رضی اللہ عنہ نے تاویل کی تھی کہ انھیں ان لوگوں نے قتل کیا ہے جو انھیں یہاں لے کر آئے ہیں۔[1] حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ بیشتر صحابہ اور تابعین نے عمار رضی اللہ عنہ کے حق میں فرمان رسول ((تَقْتُلَکَ الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ))[2] کا مفہوم یہی سمجھا تھا کہ اس پیشین گوئی کا مصداق معاویہ رضی اللہ عنہ کی فوج ہے۔ تاہم وہ اپنے اجتہاد میں معذور ہیں، اس لیے کہ وہ حق کے خواہاں تھے اور ان کا ارادہ حق تھا لیکن وہ حق تک نہ پہنچ سکے، بلاشبہ علی رضی اللہ عنہ کی جماعت ان کے مقابلہ میں حق کے زیادہ قریب تھی، جیسا کہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہوتا ہے۔[3] بہرحال، ہر چند کہ ائمہ دین کو معاویہ رضی اللہ عنہ کی تاویل پسند نہ آئی، جیسا کہ میں عنقریب نقل کروں گا، لیکن انھوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو ان کے اجتہاد میں معذور گردانا ہے، یہ ابن حجر ہیں جو فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ((یَدْعُوْہُمْ إِلَی الْجَنَّۃِ وَ یَدْعُوْنَہٗ إِلَی النَّارِ۔))[4]یعنی عمار انھیں جنت کی طرف اور وہ آپ کو جہنم کی طرف بلا رہے تھے، کی تشریح میں فرماتے ہیں: اگر کہا جائے کہ آپ صفین میں قتل کیے گئے اور اس وقت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور جن لوگوں نے قتل کیا وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ صحابہ کی اچھی خاصی تعداد تھی، پھر بھلا ان کے بارے میں یہ بات کیسے درست ہوسکتی ہے، کہ وہ لوگ عمار رضی اللہ عنہ کو جہنم کی طرف بلا رہے تھے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ لوگ اپنے گمان کے مطابق جنت کی طرف بلا رہے تھے، یہ لوگ مجتہد تھے، اگر اپنی لغزش کردہ فکر و گمان کی پیروی کرلی تو ان پر لعنت و ملامت نہیں کی جائے گی اور جنت کی طرف بلانے کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ دخول جنت کے لیے یعنی امام وقت اور خلیفہ المسلمین کی اطاعت کی طرف بلا رہے تھے، جن کی اطاعت شرعاً واجب ہوتی ہے، جب کہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی انھیں اس کے برخلاف عمل کی دعوت دے رہے تھے، لیکن وہ اپنی تاویل اور اجتہاد میں جس نتیجہ پر پہنچے معذور ہیں۔[5] امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ امام ابوالمعالی نے اپنی کتاب ’’الارشاد‘‘ میں لکھا ہے یہ فصل ہے اس بیان میں کہ علی رضی اللہ عنہ اپنے منصب خلافت پر برحق تھے اور آپ سے لڑنے والے باغی تھے، ان سے حسن ظن کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے بارے میں یہی گمان کیا جائے کہ انھوں نے خیر کی نیت کی تھی، اگرچہ انھوں نے غلطی کی۔[6] نیز فرماتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی تاویل کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمزہ کو قتل کیا، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں لے کر میدان جنگ میں گئے تھے؟ یہ علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے جواب نہیں بلکہ الزامی جواب تھا، امام ابوخطاب ابن دحیہ کہتے ہیں کہ یہ آپ کی ایسی دلیل تھی جس پر |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |