و: امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: یہ حادثہ علی رضی اللہ عنہ کی امامت اور ان کی اطاعت کے وجوب کی دلیل ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کی اطاعت کی طرف بلانے والا جنت کی طرف بلا رہا تھا اور آپ سے جنگ کی طرف بلانے والا اگرچہ تاویل کر رہا تھا، لیکن وہ جہنم کی طرف بلا رہا تھا، یہ واضح دلیل ہے کہ علی رضی اللہ عنہ سے قتال کرنا جائز نہیں تھا اورجس نے قتال کیا وہ اگر تاویل پر اعتماد کرتے تھے تو غلطی پر اور اگر بلا تاویل بضد تھے تو بغاوت پر تھے، ہمارے اصحاب کے دو اقوال میں سے صحیح قول یہی ہے۔ یعنی جن لوگوں نے علی رضی اللہ عنہ سے قتال کیا ان پر حکم لگایا جائے کہ یہ ان کی اجتہادی غلطی تھی، یہی ہمارے ائمہ کا مسلک ہے اوریہی مذہب ان ائمہ فقہ کا بھی ہے جنھوں نے تاویل کے سہارے بغاوت کرنے والوں سے قتال کرنے کا مسئلہ مستنبط کیا ہے۔[1] نیز فرماتے ہیں: ہر چند کہ علی رضی اللہ عنہ اپنے مخالف کے مقابلہ حق کے زیادہ قریب تھے اور باوجودیہ کہ حدیث رسول کے مطابق عمار رضی اللہ عنہ کو باغی گروہ نے قتل کیا تھا، لیکن اس حادثہ سے متعلق ہم پر یہ فرض ہے کہ جو کچھ ان کی شان صحابیت کے بارے میں اللہ کے پاس سے اترا ہے اس پر ایمان لائیں اور پورے حق کا اقرار کریں، اس میں ہماری نفس پرستی کی قطعاً مداخلت نہ ہو، بغیر علم کے ہم ایک لفظ نہ بولیں، بلکہ علم اور انصاف کا راستہ اپنائیں اور علم و انصاف کا راستہ کتاب و سنت کی اتباع ہے کیونکہ جو شخص بعض حق و حقیقت کو مانتا ہے اور بعض کو چھوڑ دیتا ہے تو یہیں سے اختلافات اور انتشار کی بنیاد پڑ جاتی ہے۔[2] ز: علامہ عبدالعزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عمار رضی اللہ عنہ کی حدیث میں فرمایا ہے: ((تَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ۔)) عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا اور وہ جنگ صفین میں معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت کے ہاتھوں قتل ہوئے، ایسی صورت میں معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت کے لوگ باغی ہوئے، لیکن اِن لوگوں نے اجتہاد کیا تھا اور اس حادثہ کا اصل سبب یعنی عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا انتقام لینے کے مطالبہ کو اپنا جائز مطالبہ سمجھ رہے تھے۔[3] ح: سعید حوی لکھتے ہیں: عمار، جن کے بارے میں صریح نص موجود تھی کہ انھیں باغی گروہ قتل کرے گا، جب وہ قتل کردیے گئے تب تردد و تذبذب میں رہنے والوں کے لیے یہ حقیقت کھل گئی کہ علی رضی اللہ عنہ حق پر ہیں اور ان کے ساتھ مل کر قتال کرنا واجب ہے، اسی لیے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے جنگ سے پیچھے رہ جانے پر افسوس کا اظہار اس طرح کیا کہ مجھے اس جنگ سے پیچھے رہ جانے پر سخت مایوسی ہے۔ آپ نے اس افسوس کا اظہار اس لیے کیا تھا کہ ایک واجب کی ادائیگی نہ کرسکے تھے یعنی ناحق علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کرنے والوں کے خلاف علی رضی اللہ عنہ کی مدد نہ کرسکے، جیسا کہ فقہائے دین نے اسی کا فتویٰ دیا ہے۔[4] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |