اپنے معمول پر نہ آجائیں، ماحول پرسکون نہ ہوجائے اور مسلمان متحدنہ ہوجائیں۔ [1] امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’صحابہ کے درمیان قائم ہونے والی جنگوں کا سبب یہ تھا کہ معاملات بہت پیچیدہ اور ناقابل فہم تھے اور یہی پیچیدگی ان کے اجتہادی اختلاف کا سبب بن گئی، وہ تین حصوں میں بٹ گئے: پہلا فریق وہ تھا جس کے خیال میں علی رضی اللہ عنہ اپنے اجتہاد میں حق بجانب اور ان کا مخالف باغی تھا، لہٰذا ان لوگوں نے سوچا کہ علی رضی اللہ عنہ کی تائید وحمایت کرنا اور ان کے باغیوں سے قتال کرنا ضروری ہے، اورہر فرد جو اس خیال سے متفق ہو اس کے لیے ایسی حالت میں باغیوں کے خلاف امام عادل کی فوری مدد ضروری ہے اور اس سے پیچھے ہٹنا جائز نہیں، چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا۔ دوسرافریق وہ تھا جس نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو ان کے اجتہاد میں حق بجانت سمجھا پھر آپ کی مدد کی، اور مخالفین سے قتال کیا۔ جب کہ تیسرے فریق کے سامنے معاملہ غیر واضح تھا، وہ حیران تھے کہ کیا کریں، فریقین میں سے کسی کی حمایت کو ترجیح نہیں دے پارہے تھے۔ اس لیے ددنوں سے الگ رہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ایسی صورت میں ان کے لیے الگ رہنا ہی ضروری تھا، اس لیے کہ جب تک کسی مسلمان کے خلاف قتال کے شرعی اسباب ظاہر نہ ہوجائیں اس کے خلاف اقدام کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر ان لوگوں کے سامنے فریقین میں سے کسی ایک کے حق بجانب ہونے کار جحان واضح ہوتا اور مانتے کہ حق اسی کے ساتھ ہے تو ان کے لیے ایسے فریق کی حمایت ومدد سے پیچھے رہنا، اور اس کے مخالفین سے جنگ نہ کرنا جائز نہ ہوتا۔‘‘[2] قصاص طلب کرنے میں طلحہ، زبیر، عائشہ و معاویہ رضی اللہ عنہم کا موقف: 1۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا : مکہ سے مدینہ واپسی کے راستہ میں جب ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر سنی تو مکہ واپس لوٹ گئیں اور مسجد حرام میں داخل ہوکر حجر (حطیم)میں پردہ کرکے بیٹھ گئیں، لوگ آپ کے ارد گرد جمع ہوگئے، آپ نے انھیں مخاطب کر کے فرمایا: ’’حضرات! مختلف شہروں اور دیہاتوں کے فسادی لوگوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کر دیا ہے، انھوں نے عثمان کے نوعمروں کو گورنر بنانے پر اعتراض کیا، درآں حالیکہ ان جیسے لوگوں کو اس سے قبل بھی مناصب حکومت پر فائز کیا جاتا رہا ہے۔ چراگاہوں پر اعتراض کیا، حالانکہ اس میں بھی کوئی معقولیت نہ تھی، ان کے لیے جب کوئی بہانہ اور عذر نہ رہا تو انھوں نے اخلاق و شریعت کی تمام اقدار کو توڑ کر ایک حرام خون، نیز بلدحرام، شہر حرام اور مال حرام کو بھی اپنے لیے حلال کرلیا۔ اللہ کی قسم! عثمان کی ایک انگلی روئے |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |