Maktaba Wahhabi

614 - 1201
زمین کے ان جیسے لوگوں سے بہتر ہے۔ لہٰذا ان لوگوں کے خلاف جمع ہوجاؤ تاکہ انھیں ایسی عبرت ناک سزادی جائے کہ دوسرے لوگوں کو بھی اس سے عبرت ہو اور آئندہ کسی کو اس طرح دیدہ دلیری کی جسارت نہ ہو۔ اللہ کی قسم ! جس بات کو لے کر انھوں نے عثمان پر دست درازی کی ہے اگر وہ گناہ تھا تو وہ اس سے بالکل اسی طرح پا ک صاف ہوچکے تھے، جس طرح کندن بنایا ہوا سونا خراب سونے سے، یا میل کچیل سے پاک کپڑا جب اسے پانی میں دھل کر نچوڑ دیا جائے۔ ‘‘ [1] ایک روایت میں ہے کہ جب عائشہ رضی اللہ عنہا واپس مکہ پہنچیں تو امیر مکہ عبداللہ بن عامر الحضرمی رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آئے اور کہا: ’’اے ام المومنین آپ کیوں واپس آگئیں؟‘‘ تو آپ نے جواب دیا: ’’عثمان کی مظلومانہ شہادت نے مجھے واپس لوٹایا ہے، یہ فتنہ ابھی دبتا ہوا نظر نہیں اتا، اس لیے مظلوم خلیفہ کا خون رائیگاں نہ جانے دو اور قاتلوں سے قصاص لے کر اسلام کی عزت بچاؤ۔‘‘[2] صحیح اور صریح احادیث میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبانی عثمان رضی اللہ عنہ کے حق میں تعریف اور آپ کے قاتلین پر لعنت ثابت ہے، نیز عثمان رضی اللہ عنہ کے فضائل کے بارے میں آپ رضی اللہ عنہا سے متعدد احادیث وارد ہیں۔ چنانچہ فاطمہ بنت عبدالرحمن الیشکر یہ اپنی ماں سے روایت کرتی ہیں کہ جب ان کے چچا نے انھیں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا تو ان سے کہلوایاکہ تمہارا ایک بیٹا تم پر سلام بھیجتا ہے اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے بارے میں دریافت کررہا ہے، کیونکہ لوگ ان کے بارے میں بہت کچھ چہ میگوئیاں کررہے ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’اللہ کی لعنت ہو اس پر جو ان (عثمان ) پر لعنت بھیجے، اللہ کی قسم! اللہ کے نبی کے پاس وہ بیٹھے ہوئے تھے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میر ی طرف اپنی پیٹھ کی ٹیک لگائے تھے، جبریل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قرآن کی وحی لاتے اور آپ فرماتے: اے عثمان! لکھو، اگر وہ اللہ اور اس کے رسول کے مخلص وفادار نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان کو اتنا بلند رتبہ نہ دیتا۔‘‘[3] مسروق کا بیان ہے کہ جب عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوگئی تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:’’تم نے شروع میں اسے ایسے اکیلا اور الگ چھوڑ دیا، جیسا کہ میل کچیل صاف ستھرے کپڑے سے الگ ہوتا ہے، پھر تم ان کے پاس گئے اور بکرے کی طرح اسے ذبح کیا۔‘‘ مسروق نے جواب دیا: ’’یہ سب کچھ آپ نے کیا، آپ نے لوگوں کے نام خطوط لکھوائے اور حکم دیا کہ ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہو۔‘‘ عائشہ رضی اللہ عنہا فرمانے لگیں: ’’قسم ہے اس ذات کی جس پر مومن لوگ ایمان لائے اور جس کا کا فروں نے انکار کیا، میں نے اب تک خط کے نام پر سفید کاغذ میں کوئی سیاہ نقطہ تک نہیں رکھا۔‘‘[4]
Flag Counter