میں اپنی کتاب ’’عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے‘‘ میں سبائیوں کی دروغ گوئی کو بیان کرچکا ہوں، اور یہ بتاچکا ہوں کہ انھوں نے اپنی طرف سے خطوط لکھ کر شہر والوں کے نام بھیجے تھے اور انھیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب کردیا تھا۔ اس مقام پر ایک حقیقت ہماری نگاہوں سے اوجھل نہ ہونا چاہیے، وہ یہ کہ جھوٹی، سنداً ضعیف اور جھوٹے راویوں پر مبنی غیر معتبر روایات نے عائشہ اور عثمان رضی اللہ عنہما کے درمیان تعلقات کی ایسی منظر کشی کی ہے، جو مذکورہ صحیح روایات سے بالکل مختلف ہے اور افسوس کی بات ہے کہ بعض معاصر مؤلفین ومصنّفین نے انھی روایات پر اعتماد کیا ہے اور انھی کو عام کررہے ہیں۔ ان جھوٹی روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ عائشہ اور عثمان رضی اللہ عنہما کے درمیان اختلاف تھا اور عائشہ رضی اللہ عنہا ہی نے لوگوں کو عثمان کے خلاف بغاوت پر ابھارا تھا۔ وہ روایات عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت میں عائشہ رضی اللہ عنہا کو شبہ شریک دکھاتی ہیں۔ ان روایات کو امام طبری نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے اور طبری سے دیگر مؤرخین نے نقل کیا۔ امام طبری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ میرے پاس علی بن احمد بن حسن العجلی نے لکھاکہ حسین بن نصرالعطار نے کہا، ہم سے سیف بن عمر نے بیان کیا، انھوں نے محمدبن نویرہ اور طلحہ بن الأعلم الحنفی سے روایت کیا کہ جب عائشہ رضی اللہ عنہا مکہ واپس لوٹتے ہوئے سرف تک پہنچیں ۔ دوسری سند میں ہے کہ ہم سے عمر بن سعد نے بیان کیا اور انھوں نے اسد بن عبداللہ سے روایت کیا اور انھوں نے ’’عَمَّنْ اَدْرَکَ مِنْ اَہْلِ الْعِلْمِ‘‘ یعنی چند اہل علم سے سے روایت کیا کہ جب عائشہ رضی اللہ عنہا مکہ واپس لوٹتے ہوئے سرف[1] تک پہنچیں تو وہاں عبد بن ام کلاب جو کہ اپنے ماں کی طرف منسوب ہیں، حالانکہ ولدیت ابو سلمہ ہے، یعنی عبد بن ابی سلمہ سے ملاقات ہوگئی۔ آپ رضی اللہ عنہا نے عبد سے پوچھا: کیا خبر ہے؟ اس نے کہا: لوگوں نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا، پھر آٹھ روز تک ٹھہرے رہے، آپ نے پوچھا: پھر کیا کیا؟ اس نے کہا: اہل مدینہ نے متفق ہو کر اسے (خلافت) لے لیا اور جو کچھ بھی ہوا اچھا ہی ہوا، علی بن ابی طالب کی خلافت پر سب متفق ہوگئے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں: مجھے واپس لے چلو، مجھے واپس لے چلو، اگر معاملہ تمھارے بڑے (علی) کے ہاتھ میں جا چکا ہے تو اے کاش جو کچھ اس (عثمان) پر ہوا اس (علی) پر ہوتا۔ پھر آپ مکہ لوٹ گئیں اور یہ کہہ رہی تھیں: اللہ کی قسم! عثمان مظلوماً شہید کیے گئے، واللہ میں ان کے خون کا بدلہ لے کر رہوں گی۔ ابن ام کلاب نے آپ سے کہا: آج آپ ایسا کیوں کہہ رہی ہیں؟ اللہ شاہد ہے کہ آپ ہی نے سب سے پہلے اس کی بات بگاڑی ہے، آپ ہی کہہ رہی تھیں کہ ’’نعثل‘‘[2]کو قتل کردو اس نے کفر کیا ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: لوگوں نے اس سے توبہ کرنے کو کہا تھا، پھر اسے قتل کیا، کچھ میں نے کہا اورکچھ انھوں نے کہا۔ لیکن میری آخری بات پہلی بات سے بہتر ہے، ابن ام کلاب نے آپ سے کہا: فَمِنْکِ الْبَدَائُ وَمِنْکِ الْغَیْرُ وَمِنْکِ الرِّیَاحُ وَ مِنْکِ الْمَطَرُ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |