Maktaba Wahhabi

616 - 1201
’’آپ ہی نے شروعات کی اور آپ ہی بدل رہی ہیں،آپ ہی کی طرف سے آندھیاں اور آپ ہی کی طرف سے بارش ہے۔‘‘ وَاَنْتِ اَمَرْتِ بِقَتْلِ الْاِمَامِ وَقُلْتِ لَنَا: اِنَّہٗ قَدْ کَفَرْ ’’آپ ہی نے امام (عثمان) کو قتل کیا اور ہم سے کہا کہ اس نے کفر کیاہے۔‘‘ چنانچہ وہ مکہ لوٹ گئیں، مسجد حرام کے دروازہ پر رکیں، پھر حجر(حطیم) میں چلی گئیں اور وہیں ایک کنارے بیٹھ گئیں، لوگ آپ کے پاس جمع ہوگئے، آپ نے ان کو مخاطب کرکے کہا: ’’بے شک عثمان مظلوم شہید کیے گئے ہیں، اللہ کی قسم! میں ان کے خون کا بدلہ لے کر رہوں گی۔‘‘[1] امام طبری کی یہ روایت دوسندوں سے مروی ہے جیسا کہ ہم نے شر وع میں دیکھا۔ پہلی سند کے راویوں میں نصربن مزاحم العطار ایک راوی ہے جو کتب رجال میں ان صفات سے مجروح ہے: شیعہ ہے، اس کی روایات منکر ہیں، محدثین نے اس کی روایات نہیں لی ہیں، مجلود، یعنی تعزیری سزا پاچکا ہے۔[2] جب کہ دوسری سند میں ایک راوی عمر بن سعد ہے، یہ اس قافلہ کا سرغنہ تھا جس نے حسین رضی اللہ عنہ سے قتال کیا تھا، محدثین کے نزدیک اس کی حدیث صحیح نہیں ہوتی، متہم بالوضع اور متروک ہے۔[3] پس روایت اپنی دونوں اسناد کے اعتبار سے غیر معتبر ہے۔[4]تاریخ وادب کی کتب میں بھی عائشہ رضی اللہ عنہا کی کردار کشی کرنے والی کئی ضعیف اور موضوع (جھوٹی) روایات وارد ہوئی ہیں، لیکن علمی تحقیق وتنقیدکی کسوٹی پر وہ پوری نہیں اترتیں،[5] اسی طرح ’’العقد الفرید‘‘، ’’کتاب الأغانی‘‘، ’’تاریخ الیعقوبی‘‘ ’’تاریخ المسعودی‘‘ اور ’’أنساب الأشراف‘‘ وغیرہ کتب میں جو روایات اس سلسلہ میں وارد ہیں اور عثمان رضی اللہ عنہ کی زندگی میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی جو سیاسی کردار دکھا رہی ہیں، وہ قطعاً قابل توجہ نہیں ہیں اس لیے کہ وہ صحیح روایات کے خلاف اور بے بنیاد ہیں، ان میں اکثر روایات بلاسند ہیں اور جن کی سندیں ہیں وہ مجروح ہیں، ان سے استدلال نہیں کیا جاسکتا ہے۔ مزید برآں جب ان کے متون کا دیگر صحیح اور حقائق سے قریب ترین روایات سے موازنہ کیا جاتا ہے تو یہ متون غلط ثابت ہوتے ہیں۔[6] ایک معزز و مکرم اور محقق خاتون’’ اسماء محمد احمد زیادہ‘‘ نے ان تمام روایات کی اسناد اور متنوں کی تحقیق کی ہے جو اس فتنہ کے واقعات میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے کردار پر بحث کرتی ہیں۔ آپ نے نہایت علمی انداز میں ان روایات پر
Flag Counter