(2) امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ اور شیعی فکر شیعہ اور رفض کا لغوی اور اصطلاحی مفہوم شیعہ کا لغوی مفہوم: شیعہ کا معنی ہے مددگار و پیروکار۔ جس طرح ’’وَالاہ‘‘ کا معنی اس نے اس سے محبت و دوستی کی اسی طرح ’’شَایَعَہُ‘‘ کا معنی اس نے اس کی مدد کی اور ساتھ دیا۔ اور ’’تشیع الرجل‘‘ کا مطلب ہے شیعیت کا دعویٰ کیا، جب کہ تشایع القوم کا مفہوم ہے: ’’ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔‘‘ اس طرح ہر جماعت جو ایک خیال اور ایک مقصد پر متفق ہو وہ سب ’’شیعہ‘‘ کہلاتے ہیں۔ اور اللہ کے فرمان: كَمَا فُعِلَ بِأَشْيَاعِهِم مِّن قَبْلُ ۚ (سبائ:54) میں ’’اشیاع‘‘ ہم مثل کے معنی میں ہے، ترجمہ ہے: جیسا کہ اس سے پہلے بھی ان جیسوں کے ساتھ کیا گیا۔[1] المصباح المنیر میں ہے کہ ’’الشیعۃ‘‘ کا معنی معاونین و پیروکار اور ہر جماعت جو کسی ایک چیز پر متفق ہو وہ شیعہ ہے۔پھر بعد کے ادوار میں ’’شیعہ‘‘ کا اطلاق ایک مخصوص جماعت پر ہونے لگا، اس کی جمع ’’شیع‘‘ ہے، جیسے سدرۃ کی جمع سدر ہے۔ اور ’’اشیاع‘‘ جمع الجمع ہے اور کہا جاتا ہے کہ ’’شیعت رمضان لست من شوال‘‘[2]یعنی رمضان نے شوال کے چھ روزوں کا ساتھ دیا۔ اس طرح شیعہ کا لغوی معنی: قوم، ساتھی، پیروکار اور اعوان و انصار ہوتا ہے۔ اور اس معنی میں قرآن کی بعض آیات وارد ہیں۔اللہ کا ارشاد ہے: فَوَجَدَ فِيهَا رَجُلَيْنِ يَقْتَتِلَانِ هَـٰذَا مِن شِيعَتِهِ وَهَـٰذَا مِنْ عَدُوِّهِ ۖ فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِي مِن شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ (القصص: 15) ’’اس میں دو آدمیوں کو پایا کہ لڑ رہے ہیں، یہ اس کی قوم سے ہے اور یہ اس کے دشمنوں میں سے ہے۔ تو جو اس کی قوم سے تھا اس نے اس سے اس کے خلاف مدد مانگی جو اس کے دشمنوں سے تھا۔‘‘ اور فرمایا: وَإِنَّ مِن شِيعَتِهِ لَإِبْرَاهِيمَ ﴿٨٣﴾ (الصافات: 83) ’’اور بے شک اس کے گروہ میں سے یقینا ابراہیم (بھی) ہے۔ ‘‘ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |