Maktaba Wahhabi

449 - 1201
10۔ کنجوس خبردار رہے: امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: بخیل کے مال کو کسی حادثہ یا وارث سے خبردار کردو۔[1] اور بخیل بعجلتِ تمام فقیری کو دعوت دیتا ہے، وہ دنیا میں فقیروں سی زندگی گزارتا ہے اور آخرت میں مال داروں جیسا حساب دے گا۔[2] 11۔ نماز کے لیے نداء لگانا: امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نماز کے بارے میں سخت اہتمام کرنے والے تھے، راستہ سے گزرتے ہوئے نماز، نماز کی نداء لگاتے رہتے اور اس طرح فجر کی نماز کے لیے لوگوں کو بیدار کرتے، حسن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جس دن آپ پر قاتلانہ حملہ ہوا اس دن گھر کے دروازہ سے نکلے اور حسب معمول نداء لگائی: اے لوگو! نماز، نماز۔ آپ روزانہ ایسا ہی کرتے تھے، آپ کے پاس آپ کا دُرّہ ہوتا تھا، اتنے میں دو آدمیوں نے آپ کا راستہ روک لیا اور ابن مُلْجِم نے آپ کے دماغ پر کاری ضرب لگادی۔[3] 12۔ عام راستوں کا اہتمام: امیر المومنین سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ حکم دیتے تھے کہ بیت الخلاء اور نالیوں کو عام راستوں سے ہٹ کر بنایا جائے۔[4] 13۔ قصہ گوئی کی بدعت کا ظہور اور ان کے خلاف امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی محاذ آرائی: جب سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے عہد میں قصہ گوئی کی بدعت رواج پانے لگی تو صحابہ اور تابعین نے اس پر سختی سے نکیر کی، چنانچہ محمد بن وضاح، موسیٰ بن معاویہ سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: ہم سے ابن مہدی نے سفیان کے حوالہ سے بیان کیا اور سفیان نے عبید اللہ بن نافع سے روایت کیا کہ انھوں نے کہا: عہد نبوی، عہدابوبکر، عہد عمر اور عہد عثمان میں قصہ گوئی کا وجود نہ تھا، قصہ گوئی کا رواج اس وقت ہوا جب فتنوں کا ظہور ہوا۔[5] ’’قصہ گو‘‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جو علم اور اہل علم کی مجلسوں کی طرح وعظ و نصیحت کی مجلسیں رچاتے ہیں اور ایسی حکایات، کہانیاں اور اسرائیلی روایات بیان کرتے ہیں جو بے بنیاد، من گھڑت اور موضوع ہوا کرتی ہیں اور عوام الناس کی فہم سے بالاتر ہوا کرتی ہیں۔ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے ان واعظین پر پابندی لگائی اور انھیں اس سے منع کیا، اس لیے کہ یہ لوگ عوام الناس کو عجیب و غریب واقعات، متشابہ شرعی نصوص اور ان کی عقل سے بالاتر باتیں سناتے تھے۔[6] البتہ ان لوگوں کو اس سے مستثنیٰ رکھا جنھیں علم شرعی پر عبور حاصل ہو۔ اس طرح علی رضی اللہ عنہ کی پوری
Flag Counter